سب سے پہلے میں

اس نے ایک موبائل خریدنا تھاجوکہ آج ہی کمپنی نے مارکیٹ میں لانچ کیا تھا اور سٹورز پر ان کے کھلنے سے پہلے ہی لوگ موجود تھے اور لائن بنا کر کھڑے تھے رابرٹ بھی اس مقصد کیلئے وہاں گیا تھا۔وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح لائن میں کھڑا ہوکر باری کا انتظار کرنے لگا۔ باری آنے میں ابھی کچھ دیر تھی۔یکدم اس کا ذہن بدلہ اور اس نے سوچا کہ کیوں نہ کل پرسوں خرید لیا جائے مگر وہ جو تین گھنٹے میں لائن میں کھڑا ہوکر اپنا وقت ضائع کرچکا تھا اسے اس بات کا شدید دکھ تھا اچانک ہی اس کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا اس نے قطار سے باہر کھڑے کچھ لوگوں سے بارگیننگ کی اور اپنی جگہ 100ڈالر میں فروخت کردی ۔اسے یہ کام منافع بخش لگا رابرٹ نے اپنی روزی اور معاش کمانے کیلئے اسی شعبے کو اپنانے کا فیصلہ کیا اور اگلے روز اپنے چند دوستوں کو بھی اس کام میں شامل کر لیا اور انہیں قطار میں انتظار کرنے کیلئے کھڑا کردیا اس روز رابرٹ نے ساڑھے تین سو ڈالر کمائے۔اورکچھ عرصہ بعد اس نے دوسروں کیلئے قطار میں کھڑے ہوکر انتظار کرنے کی خدمات فراہم کرنی والی ایک کمپنی بناڈا لی۔ بے بی سٹر کی طرزپر لائن سٹر کا پیشہ متعارف کرایا اور اب اسکی باقاعدہ ایک ویب سائٹ ہے اور دوسرے سوشل میڈیا ز پر اس کے پیجز بھی موجود ہیں جوکہ اسے آرڈر دلوانے کا ایک ذریعہ ہیں ۔رابرٹ کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں ایک خوف پایا جاتا ہے کہ نئی متعارف ہونے والی پروڈکٹ شاید دنیا کی آخری پروڈکٹ ہے اور اسے ضرور خریدنا چاہیے ایسا نہ ہوکہ دوبارہ سے دستیاب نہ ہوسکے اور اسی خوف کے سبب وہ لوگ مجھے پے کرتے ہیں اور جس کا انہیں کوئی افسوس بھی نہیں ہوتا۔

رابرٹ کے ماتحت اس وقت 10ویٹرز (انتظار کرنے والے) موجود ہیں جو مختلف پوائنٹ اور سپاٹس پر جا کر قطاروں میں کھڑے ہوکر انتظار کرتے ہیں بعض اوقات اپنی جگہ کسی دوسرے کو دینے کا عمل پیچھے کھڑے لوگوں کو تکلیف دیتا ہے اور بسااوقات بدمزگی کا سبب بھی بنتا ہے لہذا اس مسئلے سے بچنے کیلئے رابرٹ اور اسکے ساتھی یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ لائن میں کھڑا ہونے بعد اردگرد کے لوگوں کو بتا دیتے ہیں کہ وہ کسی اور کیلئے لائن میں انتظار کررہے ہیں اور اپنی خدمات وہ ان کو بھی دے سکتے ہیں پھر وہ انہیں اپنا وزٹینگ کارڈ بھی پیش کردیتے ہیں ۔اسی طرح بدمزگی سے بچنے کے ساتھ ساتھ کمپنی کا تعارف بھی ہوجاتا ہے ۔رابرٹ کا یہ کاروبار بڑے زور شور سے جاری ہے اور خوب پھل پھول رہا ہے ایک سروے کے مطابق امریکیوں میں یہ خبط زیادہ پایا جاتا ہے کہ مارکیٹ میں ہر نئی آنے والی پروڈکٹ کو سب سے پہلے خرید کر استعمال کریں اس میں امیر غریب چھوٹے بڑے سب ہی ایک کشتی کے سوار ہیں ہر امریکی اوسطا ہرروز 8منٹ تک قطار میں انتظار کرتا ہے اور تقریبا ملتی جلتی صورتحال یورپین کی بھی ہے۔بے صبری اس میں سب سے بڑا فیکٹر ہے اور لوگوں کا بے صبرا پن بعض اوقات انہیں نقصان سے بھی دوچار کرتا ہے ’’سب سے پہلے میں‘‘ والہ رویہ انسان سے صبر اور سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیت سلب کرلیتا ہے۔

بات خبط کی ہو اور پاکستانی پیچھے رہ جائیں ہو ہی نہیں سکتا۔یہ خبط پاکستانیوں میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے لیکن پاکستانیوں میں ایک نمایاں فرق قوانین کی پاسداری نہ کرنا اور اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینا ہے۔قوانین کا نفاذ نہ ہونا ۔قانون کو گھر کی باندی سمجھنا۔جرائم اور کرائم کو برا تصور نہ کرنا ہمارا وطیرہ بنتا جارہا ہے ۔پاکستانی بھی ہرنئی چیز کو سب سے پہلے خریدنا چاہتا ہے لیکن قطار میں لگ کر اپنی مطلوبہ شے حاصل کرنا معیوب خیال کرتے ہیں۔ امراء شرفا(ایلیٹ کلاس) میں یہ بیماری عام ہے کہ وہ نہ تو لائن میں لگنا چاہتے ہیں اور نہ ہی دیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ کام بھی کوئی نہیں ہوتا۔ بس تمام اخلاقی اور معاشرتی اقدار اور اصولوں کو پامال کرکے ،تعلقات اور پیسے کا استعمال کرکے سب سے پہلے میں کے تصور کو پروان چڑھایا جاتا ہے جوکہ نہایت ہی نامعقول رویہ ہے۔

اگر ہم اس مقولے پر عمل کریں کہ صبر کا پھل میٹھاہوتا ہے تو ہمیں اس بات کی اہمیت کا اندازہ بخوبی ہوسکتا ہے کہ کسی بھی پروڈکٹ کی خریداری، ٹکٹس کا حصول جہاز کی ہو کہ بس کی یا ٹرین کی ہو کہ سینما گھر کی،بلوں کی ادائیگی جیسے کتنے ہی ایسے معاملات ہیں جہاں پر قطار بناکر گھنٹوں والا کام منٹوں میں کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جس قوم پر نظم وضبط کا بنیادی نقطہ سمجھ کر اپنالیا تو دنیا کی کوئی طاقت اس کی کامیابی اور ترقی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ سب سے اہم بات یہ کہ دوسروں کیلئے انتظار کرنے والا کام پاکستان میں باآسانی پنپ سکتا ہے کیونکہ پاکستانی عوام وڈیرے جاگیرداروں بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کیلئے ہر روز صبح سے شام تک انتظار کرتی ہے۔موصوف جیسے پر جلوہ افروز ہوتے ہیں خاص کیبنٹ کے لوگ اپنے اپنے مسائل کے پلندے ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔اور جب صبح سے آکر انتظار کرنے والی کی باری کا وقت آتا ہے تو وقت ختم ہوجاتا ہے اور پھر اگلے دن یہی عمل دہرایا جاتا ہے۔اگر یہی انتظار کرنے والے دوسروں کیلئے انتظار کرنا شروع کردیں تو ان کی چاندی بھی ہوجائے گی اور صاحب کی نظر کرم بھی ہوتی رہے گی اور کام بھی نکلتا رہے گا۔مفت مشورہ ہے کہ پاکستانی اس پر زیادہ آسانی سے عمل کرسکتے ہیں-

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 193276 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More