تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حذب اﷲ مجاہد
کسی بھی قوم کی ترقی میں مزدور کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ مزدور وہ
طبقہ ہوتا ہے جو دن رات محنت کرکے ملک کے صنعتوں ، ذراعت کو چلاتا ہے بلکہ
ہر شعبے میں مزدور کا کردار ناقابل تسخیر ہے مگر بدقسمتی سے آج تک مزدور کو
اس کے کردار کے عین مطابق حقوق نہیں مل سکے ہیں۔
مزدوروں کے حقوق کیلئے 1886میں ایک تحریک چلی تھی جس میں کئی مزدوروں اور
مزدور رہنماؤں نے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور تاریخ میں امر ہو گئے
جن کی یاد میں ہر سال یکم مئی کو عالمی یوم مزدور منایا جاتاہے۔اس دن مختلف
اخبارات میں صدر، وزیراعظم اور وزرائے اعلی کے عالمی یوم مزدور کے مناسبت
سے پیغامات چھپتے ہیں جن میں شگاگو کے جان نثاروں کو سلامی پیش کی جاتی ہیں،
مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے وعدے کئے جاتے ہیں ۔ اس دن مختلف شہروں میں پر
رونق تقاریب منعقد کئے جاتے ہیں جن سے مہنگے گاڑیوں میں سوار ، مہنگے
ملبوسات زیب تن کئے ہوئے مزدور رہنماء بھی خطاب کرتے ہیں ، جہاں خون کے
آخری قطرے تک مزدوروں کے حقوق کیلئے لڑنے کے وعدے کئے جاتے ہیں ان تقریبات
میں شریک تمام مزدور سرکاری ملازمین یا پرائیویٹ کمپنیوں کے مستقل ملازمیں
ہوتے ہیں جن کی اس دن کی دیہاڑی بھی لگ رہی ہوتی ہے اور قیادت جن مارکسسٹ،
سوشلسٹ، کمیونسٹ مزدور رہنماؤں پر مشتمل ہوتی ہے انہیں بھی نامعلوم سمت سے
مراعات پہنچ رہی ہوتی ہے۔ اسے بدقسمتی کہیں یا پھر کچھ اور مگر اس دن حقیقی
مزدور کسی بھی تقریب میں نظر نہیں آتاکیونکہ اسے یکم مئی اور دو مئی کے
درمیانی شب اپنے گھر کا چولھا بھی جلانا ہوتا ہے۔ اس مزدور کیلئے اس کا دن
تو وہی ہوتا ہے جس دن اسے مزدوری پر کام مل جائے اور کچھ کماکراس شب وہ
اپنے گھر کا چولھا جلا سکے چاہے اس کیلئے وہ دن یکم مئی کی ہو یا 20جون کی
گرم ترین دن یا پھر وہ 20دسمبر کی سردی سے ٹھٹراتی دن اس بات سے اسے کوئی
سروکار نہیں ہے۔
یکم مئی ہر سال آتی ہے اور چلی بھی جاتی ہے اس سال بھی آگئی اور چلی بھی
گئی ہر سال دھوم دھام سے مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس سال بھی
دھوم دھام سے مزدوروں کا عالمی دن منایا گیا مگراس دن کو منانے کے بعد پہلے
مزدور کیلئے کیا تبدیلی آئی تھی اوراب مزدورکی جانب سے کن تبدیلیوں کی توقع
کی جاسکتی ہیں۔ کیا کراچی، کوئٹہ، لاہور، پشاور، فیصل آباداور دیگر شہروں
میں فٹ پاتھ پر دیہاڑی کے انتظار میں بیٹھے مزدور کو اب دیہاڑی کیلئے فٹ
پاٹھ پر بیٹھنا نہیں پڑے گا؟؟؟ کیا چند برس قبل پیش آنے والے سانحہ شیرشاہ
کے ذمہ داران کا تعین ہو سکے گا ؟؟کیا ان ذمہ داروں کو قانون کے کٹھرے میں
کھڑا کیا جاسکے گا؟؟؟ یکم مئی کو جن سڑکوں سے مزدوروں کے حقوق کی ریلیاں
گزر رہی تھیں کیا وہ اس دن اسی سڑک کے کنارے کھدائی کرنے والے مزدور کو بھی
اپنے ساتھ ملا سکیں گے یا پھر کیا وہ اس کی حقوق کی بھی بات کریں گے؟؟؟ کیا
ورکرز، لیبر، ایمپلائز، ٹریڈ یونین وغیرہ کے اداروں اور کمپنیوں کو بلیک
میل کرنے والے یونین لیڈر دور دراز کے اس مزدور کے حقوق کیلئے بھی تحریک
چلائیں گے جوکہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گذار رہا ہے؟؟؟ ( یہاں ایک
بات واضح ہو کہ محنت کش چاہے سرکاری اداروں میں ملازم ہوں یا کسی پرائیویٹ
کمپنی میں یا پھر کسی سڑک کنارے کھدائی کر رہا ہویقینا وہ قابل احترام ہیں
اور ان کا کردار ناقابل فراموش ہے اگر کوئی لیڈر مزدوروں کے حقوق کیلئے
مخلصانہ آواز اٹھاتا ہے تو اس کا عمل بھی قابل تحسین ہے یہاں ہدف تنقید صرف
وہی موسمی یونین لیڈر ہیں جو یکم مئی کو کسی تقریب سے خطاب کرنے کے بعد
اگلے یکم مئی تک اداروں اور کمپنیوں کو مزدوروں کے نام پر بلیک میل کرکے
اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں پھر اگلے یکم مئی کو نمودار ہوتے ہیں اور
مزدوروں کے نام پر چلنے والی وہ ناکام تحریکیں جن کے ثمرات اب تک حقیقی
مزدور تک نہیں پہنچ سکے ہیں) اگر میں غلط ہوں تو ذرا یہ بھی سوچئے کہ پھر
کیا وجوہات ہیں کہ کئی دہائیوں پر محیط مزدوروں کے لئے چلنے والی تحریکیں
کیوں حقیقی مزدور کو اس کے حقوق کی جدوجہد کا شعور دینے میں ناکام رہے
ہیں؟؟ کیا وجوہات ہیں کہ کئی دہائیوں پر محیط تحریکیں مزدور کی حالت بدلنے
میں ناکام رہے ہیں۔۔۔۔ اقبال تو اس کھیت کو ہی جلانے کی بات کرتا ہے جس سے
دہقان کو روزی میسر نہ ہو سکے تو کیا ان تحریکوں پر فکر اقبال صادر نہیں
ہوتی جو چلتی تو مزدور کے نام پر ہیں مگر ان کے ثمرات مزدوروں تک نہیں پہنچ
سکے ہیں؟؟؟ |