دین اسلام محض عقائد و عبادات کے مجموعے کا نام نہیں بلکہ
یہ ایک مکمل اور جامع نظام حیات ہے۔ اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر
رخ کے لیے ابدی ہدایات اور احکام موجود ہیں، جو ایک مسلمان کی دنیاوی اور
اخروی زندگی کے تمام دائروں اور گوشوں پر حاوی ہیں۔ ان کی روشنی میں جو
معاشرہ تشکیل پاتا ہے اسے حسن کردار کا مظہر، انفرادیت اور اجتماعیت کا
نہایت حسین امتزاج کہا جاسکتا ہے۔ اسلام جہاں معاشرے کے ہر فرد کے حقوق و
فرائض متعین کرتا ہے، وہاں وہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ تم میں
ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہنی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے، انہیں
اچھے کاموں پر لگائے اور برائی سے روکے۔ ظاہر ہے کہ جماعت افراد ہی سے
تشکیل پاتی ہے۔ اس لیے بنیادی طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا
فریضہ فرد ہی پر عائد ہوتا ہے۔ اسلام ’’نیک بنو اور نیکی پھیلاؤ‘‘ کا
علمبردار ہے۔
نیک کاموں کی تعریف یہ ہے کہ اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن کاموں کے
کرنے کا حکم دیا وہ کئے جائیں اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے باز رہا
جائے۔ اعمال صالح یا نیک کاموں میں سے چند کے عنوانات یہ ہیں سچ بولنا، عہد
کا پورا کرنا، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، نرمی سے بات کرنا، عفو و
درگزر کرنا، اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا، والدین کی خدمت کرنا، صلہ رحمی، مہمان
نوازی، امانت داری، تواضع و انکساری، بڑوں کا ادب کرنا، چھووں پر شفقت، سچی
گواہی دینا، عدل کرنا، رحم و کرم کرنا، اخلاص کے ساتھ عبادت کرنا، مخلوق
خدا کی بے غرض خدمت کرنا وغیرہ، جن کاموں سے اﷲ تعالیٰ نے منع کیا ہے، اﷲ
کی رضا کے لیے ان سے رک جانا بھی نیکی ہے۔دین کی اشاعت کے لیے محسن انسانیت
ہادیٔ برحق صلی اﷲ علیہ وسلم کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت انس رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کوئی بندہ سچا مومن
نہیں ہوسکتا، جب تک وہ مسلمان بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا
ہے۔ (بحوالہ صحیحین)حضرت جریر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس شخص پر اﷲ کی رحمت نہ
ہوگی جو اس کے پیدا کئے ہوئے انسانوں پر رحم نہ کھائے گا اور ان کے ساتھ
ترحم کا معاملہ نہ کرے گا۔ (بحوالہ صحیحین)حضرت انسؓ اور حضرت عبداﷲ بن
مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ
ساری مخلوق اﷲ تعالیٰ کی عیال (گویا اس کا کنبہ) ہے اس لیے اﷲ کو زیادہ
محبوب اپنی مخلوق میں وہ آدمی ہے جو اﷲ کی عیال (یعنی اس کی مخلوق) کے ساتھ
احسان اورا چھا سلوک کرے۔ (بحوالہ شعب الایمان بیہقی)
غور فرمائیے کہ اگر ہم میں سے ہر فرد رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان
ارشادات کو اپنی زندگی کا شعار بنا لے تو سارا معاشرہ نیکی کی خوشبو سے
کیوں نہ مہک اٹھے گااور اس میں خود بخود ہی باطل سوز اجتماعیت کیوں نہ پیدا
ہوجائے گی۔یاد رکھئے دین کی اشاعت کا مطلب یہ بھی ہے کہ اسلامی معاشرے میں
اگر حق کے خلاف کام کئے جارہے ہیں تو خاموشی کے ساتھ اس کا تماشا نہ دیکھیں
بلکہ حدود شریعت میں رہتے ہوئے اس کا تدارک کریں۔ معاشرے کا ہر فرد نہ صرف
خود حق کے تقاضے پورے کرے بلکہ دوسروں کو بھی اس طرز عمل کی تلقین کرے۔ یہ
وہ چیز ہے جو معاشرے میں حق کی سربلندی اور نیکی کی ترویج کی ضامن ہے اور
اس کو اخلاقی انحطاط سے بچاتی ہے۔ دین پر چلنے میں جو مشکلات پیش آئیں ان
کو صبر و استقامت سے برداشت کرنا چاہیے۔ اسی لیے معاشرے کے تمام افراد کے
لیے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اتباع حق کی تلقین اور گناہوں سے بچنے کی
نصیحت کرتے رہیں اور صبر سے کام لیں۔ صبر یہ ہے کہ معصیت سے بچیں، طاعات کو
بجا لائیں اور مصیبت پر شکوہ نہ کریں اور معاشرے کا کوئی فرد کسی مصیبت میں
مبتلا ہو، کسی اذیت ناک بیماری کا شکار ہوجائے یا اس کا کوئی پیارا ہمیشہ
کے لیے داغ مفارقت دے جائے تو اس کو نصیحت کی جائے کہ صبر سے کام لے، جزع
فزع نہ کرے اور اﷲ کی رضا کے سامنے سرتسلیم خم کردے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر
چل کر اسلامی معاشرے کا کوئی فرد نیکی کی ترویج میں مددگار و معاون ثابت
ہوسکتا ہے۔دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو نیک بننے اورامر
بالمعروف و نہی عن المنکر کرنیکی توفیق دے، آمین یا رب العالمین۔ |