ہائے رے ہائے چھوٹا منہ بڑی بات،اور بڑا منہ وہی چھوٹی اور پرانی بات

ہائے رے ہائے ...!!آج ایسالگتاہے کہ جیسے 21ویں صدی میں سب کچھ اُلٹاہونا ایک عام سی بات ہوگئی ہے،جس طرف نظریں اُٹھاؤسب کچھ اُلٹاہوتادکھائی دیتاہے، ہمارے یہاں کوئی ایک آدھ کام ہی سیدھا ہورہاہوتو اِس کا تذکرہ کروں، ہمارے یہاں توموجودہ حالات میں جیسے ہر کام ہی اُلٹاہوتاچلاجارہاہے، اور کسی کو اِس کی فکرہی نہیں ہے، اَب اِسی کو ہی دیکھ لیجئے کہ کسی زمانے میں چھوٹے منہ چھوٹی باتیں ہی کیا کرتے تھے، مگر اَب تو چھوٹامنہ ایسی ایسی بڑی بڑی باتیں کرجاتاہے کہ تکنے والے اِسے تکتے ہی رہ جاتے ہیں اور چھوٹامنہ وہ سب کچھ وثوق سے کہہ جاتاہے ، جِسے بڑامنہ کہنے سے پہلے دس مرتبہ سوچتاتھااور آج بھی بڑامنہ کوئی بات منہ سے نکالنے سے پہلے تولتاہے، بس آج ماضی اور حال میں یہی ایک فرق رہ گیاہے... مگرپھر بھی باحالاتِ مجبوری آ ج جب کبھی بڑے منہ کو کچھ کہنا مقصود بھی ہوتاہے تو افسوس ہے کہ وہ حسبِ روایت وہی چھوٹی اور پرانی باتیں ہی کرتاہے، اَب جِسے برسوں سے سُن سُن کرہمارے کان پک کر بہنے لگے ہیں۔

قارئین حضرات ...!آپ کو یادہوگاکہ پچھلے مہینے کی ایک تاریخ کو شہرقائد میں پیش آئے ایک واقعہ پرایک بڑے مگردرحقیقت چھوٹے (یعنی کہ ملے جھلے) منہ نے اتناکچھ کہہ دیاکہ کبھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ ہمارے یہاں کوئی منہ کسی اہم اور محب وطن ادارے کے خلاف ایسابھی کہہ سکتاہے ....؟جیساکہ ہمارے ایک انتہائی احساس ادارے کے سربراہ پر ایک چھوٹے سے منہ نے بڑے بڑے الزامات لگاکر ساری دنیا کو حیران کردیاہے اوراپنے پڑوسی ممالک سمیت سمندر پارکی دنیا کے لوگوں کوبھی راہ دکھادی کہ وہ بھی ہمارے لوگوں کے خلاف ایساہی سوچیں کہ جیساکہ اِس جیسے جھوٹے منہ والے سوچتے اور بولتے ہیں ،پچھلے دِنوں ایک یہ چھوٹامنہ کیا کُھلا...؟گویاکہ ہر طرف سے ایک دوسرے پر تنقیدوں کے نشترچلنے شروع ہوگئے، ہنوز یہ سلسلہ ابھی جاری ہے، اور لگتاہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے تک یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا،اگرچہ اِس سلسلے کو رکنے کے آثارتو کہیں سے نظر نہیں آرہے ہیں مگر خاطر جمع رہے کہ عنقریب یہ سلسلہ کسی مثبت راہ اختیارکرکے اختتام پذیرہونے اور چھوٹے بڑے منہ کو لگام دینے کے لئے کسی قانون سازی کے بعد رک ضرورجائے گا۔

جبکہ تمام اختلافات کو ایک طرف رکھ کر سوچیں تو یہ حقیقت ضرورعیاں ہوگی کہ ہم ابھی تک کسی بھی لحاظ سے کسی بھی مہذب یافتہ قوم کے معیار کے لوگ نہیں ہیں، ہم میں بے شمارایسی خامیاں درجہ بدرجہ موجودہیں جنہیں دنیا کی کسی بھی تہذیب کے کسی بھی معاشرے اور ملت کے لوگ ہرگزہرگزبرداشت نہیں کریں گے،توایسے میں عرض یہ ہے کہ براۂ کرم ہمیں یعنی ہرفردکو سب سے پہلے اپنی اصلاح خودسے کرنی چاہئے پھر اچھے اور بُرے کا جو معیاربتادیاگیاہے اِس کسوٹی پر خودکو پورااُتارناچاہئے یہ کام ہمیں سب سے پہلے اپنی ذات اور اپنے گھراپنے محلے اپنے شہراور اپنے مُلک سے شروع کرناچاہئے پھر ہم کیسے نہیں دیکھیں گے...؟ کہ میری ذات میراگھر میرامحلہ میراشہر اور میرامُلک دنیاکی تہذیب یافتہ قوموں اور معاشروں میں شمارنہیں ہوتے ہیں،ہمیں یہ ضرورسوچناچاہئے کہ آج میں اپنی اصلاح تو نہ کروں ،دنیا کی ساری برائیاں اور خامیاں مجھ میں ہوں اور میں دوسروں کی اصلاح کا ٹھیکہ اُٹھالوں تو سوچیں کیا ایساکسی صورت ممکن ہوسکتاہے...؟بدقسمتی سے میرے دیس میں ایساہی ہورہاہے، تب ہی تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ جابجاہر شعبے میں بگاڑ کی سی کیفیت ہے، اُوپر سے نیچے تک سب ہی کچھ بگاڑاہواہے،کہیں سے بہتری کی کوئی کرن سجھائی نہیں دے رہی ہے،جیسے اُمیدکی آس لوگوں کے دلوں سے ختم ہوچکی ہے، ملت کا ہر فردمایوسیوں اور نااُمیدوں کے ریگستان میں اُمیدکی خا ک چھان رہاہے،اِنسانوں کے جنگل میں بڑے بڑے اِنسان نما حیوان خونخوار دانتوں کے ساتھ منہ کھولے لوگوں کوہڑپ کرنے کے متنظرہیں، مُلک میں قانون ہے نہ قانون کی پاسداری اخلاق ہے نہ اِنسانیت ہر طرف لوٹ ماراور قتل وغارت گری کا بازارگرم ہے ، اِنسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب زمانوں کے اِنسان ایسے لمحات سے گزرتے ہیں تو اِن اِنسانوں میں تبدیلی کے خاطر اِنقلاب کی راہ ہموار ہوتی ہے، ہمارے یہاں بھی وہ دن کوئی دورنہیں جب مُلک میں ہر شعبے میں سدھار کے لئے انقلاب کا برپاہونالازمی ہوجائے گا،اور جب ہم کسی لمحے کسی انقلابی عمل سے گزرہے ہوں گے تو قوم کے ہر فرد کو اپنی اصلاح کرنی ضروری ہوگی،تاکہ ہر فرداِس عمل سے اپناباطن اور ظاہر ٹھیک کرلے اور مُلک کو نئی راہ پر لے جانے کے لئے اپنا صاف وشفاف کرداراداکرے اور اگرمیری قوم کے افراد نے تب ایسانہیں کیاگیاتو انقلاب بھی میری قوم کا کچھ نہیں کرسکے گا۔قارئین حضرات..!آئیں سب سے پہلے تو انقلاب کے معنی اور مفہوم سے آگاہی حاصل کریں، انقلاب کسی نظام میں یکدم سے تبدیلی یا اثراندازہونے کا نام نہیں ہے، انقلاب کسی تہذیب اور معاشرے میں پائی جانے والی بہت سے خامیوں اور برائیوں کو جانچنے کے بعد آہستہ آہستہ اِس کی اصلاح اور اصلاح کے بعد اِس کو افرادکی مدد سے رائج کرنے کا نام ہے دنیا میں جن اقوام نے اِس طرح اپنی خامیوں اور برائیوں کی نشاندہی کی اور اِن کی اصلاح کی وہی قومیں پائیدار انقلاب کی ضامن کہلائی ہیں،آج میری قوم کے لوگوں میں جولوگ انقلاب کی روح پھونک رہے ہیں اِنہیں چاہئے کہ یہ لوگوں انقلاب کے معنی اور مفہوم سے آگاہ کریں اِس کی راہ میں آنے والے نقصانات اور قربانیوں سمیت اِس کی افادیت کو بھی بتائیں ،تو میری قوم کسی پائیدار انقلاب کے لئے تیار ہوگی ورنہ چھوٹے منہ بڑی بڑی انقلابی باتیں کر کے قصہء پارینہ بن کررہ جائیں گے اور میرے مُلک میں انقلاب کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہوگا،تب میرے مُلک کے مصالحت پسند بڑے منہ والے لوگ وہی چھوٹی اور پرانی بات اِس طرح اِس مثال کے ساتھ کہیں گے کہ ’’ چھوٹامنہ اور بڑی بات....‘‘(ختم شُد)

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972580 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.