عوام میں موجود غریب اور بے سہارا افراد کی کفالت کرنا
ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے جس کیلئے حکومتیں اپنی سی
کوششیں کرتی بھی ہیں جس سے عوام کو جہاں فائدہ ملتا ہے وہیں بعض اوقات ان
منصوبوں میں موجود خرابیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو ان فلاحی منصوبوں کی
افادیت کو تو ختم کرتی ہی ہیں ساتھ ہی ساتھ کرپشن کے کئی در بھی کھول دیتی
ہیں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی ایسا ہی ایک منصوبہ ہے جس کا آغاز اگرچہ
غریب اور کم آمدنی والے خاندانوں کو سپورٹ فراہم کرنا تھا مگر گزشتہ دنوں
بندہ نے جب اس پروگرام کے بارے میں ریسرچ کی تو میرے سامنے اس پروگرام سے
متعلق بعض ایسی خرابیاں آئیں جن کو اعلیٰ حکام تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں
تاکہ متعلقہ افسران اس کا نوٹس لے کر مناسب اقدامات فرمائیں اور یہ منصوبہ
جاری و ساری رہے کیوں کہ اس سے نہ صرف بیشمار افراد کو روزگار میسر ہے بلکہ
لاکھوں گھرانے بھی اس سے مستفید ہورہے ہیں ۔
اس سلسلے کی سب سے بڑی خرابی بہت دلچسپ ہے اور وہ ہے اس منصوبے کیلئے اے ٹی
ایم کارڈز کے اجراء کی ۔ حکومت نے اے ٹی ایم کارڈز کے اجراء اور اس کے
ذریعے خواتین کو بظاہر سہولت دی کہ وہ بغیر کسی تکلیف اور عزت نفس کے مجروح
ہونے کے اپنی امدادی رقم اس کارڈ کے ذریعے اے ٹی ایم مشین سے نکلوا لیں اے
ٹی ایم کے اجراء کی ایک دوسری وجہ یہ بتائی گئی کہ ڈاک کے ذریعے یہ رقم
خواتین تک نہیں پہنچ پاتی تھی اور بعض اوقات ڈاکیے رقم ہڑپ کرجاتے تھے یا
ان بھولی بھالی خواتین سے '' نذرانے ''کی مد میں رقم کا ایک معقول حصہ بٹور
لیتے تھے بیشک اے ٹی ایم کارڈ اس کا ایک بہترین حل تھا مگر وقت کیساتھ یہ
ثابت ہوچکا ہے کہ پرانا سسٹم یعنی ڈاک کے ذریعے ان رقوم کی ترسیل اے ٹی ایم
کی نسبت بہت بہتر ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاں
خواتین میں شرح خواندگی کی کمی ہے اب دیکھیں کہ یہ کارڈز صرف خواتین کے نام
پر بنائے جاتے ہیں اور یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جن کی ستر فیصد سے بھی زائد
شرح جانتی ہی نہیں کہ اے ٹی ایم کس بلا کا نام ہے ۔اب ہوتا یہ ہے کہ یہ
خواتین یاتواس رقم کی ترسیل کیلئے مخصوص پوائنٹ پر پہنچتی ہیں جہاں کا منظر
بڑا ہی عجیب اور افسوسناک ہوتا ہے کہ کس طرح بیچاری سینکڑوں خواتین چند
روپوں کی خاطرسارا سارا دن یہاں پڑی رہتی ہیں جہاں انہیں ایک دوسرے کے دھکے
بھی سہنے پڑتے ہیں تو بعض لوگوں کی نظروں اورکڑوی کسیلی باتوں کا سامنا بھی
کرنا پڑتا ہے پھر بھی شام کو بعض کو رقم مل جاتی ہے تو کچھ اگلے دن کی آس
لگائے ناکام لوٹ جاتی ہیں اور یہ سلسلہ کئی روز جاری رہتا ہے یا دوسری ایک
صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ بعض ''سیانی ''خواتین یہ کارڈ لے کر کسی اے ٹی ایم
مشین کے سامنے کھڑے ہوکر کسی ایسے بھلے مانس بندے کا انتظار کرتی ہیں جو
انہیں اے ٹی ایم سے رقم نکال کر دے دے اور یہیں سے ہی ہمارے معاشرے میں
ناسور کی طرح پھیلی ہوئی کرپشن کی ایک اور صورت ظاہر ہوتی ہے کہ ایک اے ٹی
ایم مشین پر بظاہر اپنی رقم نکلوانے کیلئے آتا ہے جس سے یہ خاتون بھی اپیل
کرتی ہے کہ مجھے بھی یہ پیسے نکال دیں تو وہ اس پر''ترس''کھاکر اس کا کارڈ
بھی اندر لے جاتا ہے اور اس کی رقم پر ہاتھ صاف کر کے باہر آکر اسے کہتا ہے
کہ آپ کی رقم ابھی نہیں آئی کسی وقت دوبارہ آکر کوشش کرلیں ۔اس طرح کئی
خواتین بیچاری اپنی رقم سے محروم ہوجاتی ہیں جس کی وہ کسی کے خلاف شکائت
بھی نہیں کرپاتیں جبکہ ڈاک سسٹم میں پیسے نہ ملنے کی وجہ سے اس علاقے کا
ڈاکیا اس کا جواب دہ ہوتا تھا یا بہرحال بہت جلد متاثرہ خاتون کو اس کا حق
مل جاتا تھا جبکہ موجودہ سسٹم میں ایسا بہت مشکل ہے ۔ایک اور بڑی مشکل جو
خواتین کو اس سلسلے میں پیش آتی ہے وہ ان کے ہاتھوں اے ٹی ایم کارڈ یا اس
کے خفیہ پن کوڈ کی گمشدگی ہوتی ہے جس کا طریقہ کارتو طے کیا گیا ہے کہ
بینیفشری خاتون کے اس مسئلے کو dfoیعنی director field officerکو میل کی
جاتی ہے یہ شکائت ہیلپ لائن کے نمبر021111825999پر بھی درج کروائی جاسکتی
ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ نہ تو ان emailsکا کوئی جواب آتا ہے اور نہ ہی کبھی
ہیلپ لائن پر ان کی کوئی ہیلپ کی جاتی ہے۔اس مسئلے کا ایک سادہ سا حل یہ ہے
کہ حکومت ڈائریکٹر فیلڈ آفیسر صاحب کو پابندکرے کہ وہ ہرروز ایسی شکایات کے
ازالے کیلئے نہ صرف فون پر متاثرین کی کالز سن کر ان کے مسائل حل کریں بلکہ
وہ وقتاََ فوقتاََ تمام تحصیلوں میں موجود بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے
تمام دفاتر کے دورے بھی ترتیب دیں تاکہ ان کے سامنے اس سلسلے میں مزید اگر
کچھ خرابیاں ہوں تو سامنے آسکیں اور ان کا ازالہ کیا جاسکے ایسی ہی خرابی
ان دفاتر میں عملے کا شدید فقدان ہے جس کی ایک مثال یہاں دیپالپور میں
دیکھنے میں اکثرآتی رہتی ہے جس کا شمار ملک کی سب سے بڑی تحصیلوں میں ہوتا
ہے مگر یہاں موجود BISPآفس میں بھی فقط چار افراد ہوتے ہیں جن کے سامنے
ہزاروں خواتین ہوتی ہیں جن کو انہوں نے ڈیل کرنا ہوتا ہے اور یہ مسئلہ اس
وقت مزید گھمبیر شکل اختیار کرجاتا ہے جب لوڈشیڈنگ کے باعث کئی گھنٹے تک
بجلی نہیں آتی اور بیچاری خواتین جو پہلے اپنے کسی مسئلے کی شکائت درج
کروانے یا کوئی معلومات لینے آتی ہیں شام کو آخرکار مایوس گھر لوٹ جاتی ہیں
اس لئے میری تجویز یہ ہے کہ ان تمام دفاتر کا عملہ بڑھانے کیساتھ ساتھ ان
کیلئے جنریٹر وغیرہ کا بندوبست بھی کیا جائے تا کہ بلاتعطل ان خواتین کے
مسائل حل کئے جاسکیں سمجھ نہیں آتی دن رات خواتین کے حقوق کا ڈھنڈورہ پیٹنے
والوں کو یہاں ہرروز خواتین کی پامال ہوتی عزت نفس نظرکیوں نہیں آتی۔ اس
کیساتھ یہ کہ اس منصوبے کا اگلا سروے بھی جلد از جلد کروایا جائے کیوں کہ
بے شمار خاندان اب بھی ایسے ہیں جو اس منصوبے سے مستفید ہونے کے حقدار ہیں
مگر وہ سروے نہ ہونے کے باعث اس لسٹ سے باہر ہیں اور سب سے آخری بات یہ کہ
اس پروگرام میں معذورافراد کی مدد کو یقینی بناتے ہوئے جس خاندان میں ایک
بھی فرد معذورہو اس کو بینیفشری لسٹ میں ضرورشامل کیا جائے۔ |