ہمت و استقلال کی میراث جس قدر وافر مقدار میں جیل کے
قیدیوں میں دیکھی جا سکتی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔بالعموم قیدیوں میں
برداشت کا مادہ کم پایا جاتا ہے لیکن اس عمل میں ان کی بے بسی کا عنصر بہت
نمایاں ہے۔پاکستانی جیلوں میں قیدیوں پر تشدد ، ناقص خوراک اور علاج معالجے
کی عدم فراہمی ایک معمول کا عمل ہے لیکن اس عمل کے علاوہ ایک ہ؛بت ناک صورت
کا سامنا اُن قیدیوں کو زیادہ کرنا پڑتا ہے جو پہلی بار جیل میں جوڈیشنل
ریمانڈ پر لائے جاتے ہیں ۔
ضلعی عدالتوں کی جانب سے پولیس کسٹڈی کے بعد چودہ دن کے جوڈیشنل ریمانڈ پر
مختلف الزامات کے تحت قیدیوں کو مقامی جیلوں کے حوالے کیا جاتا ہے ۔جب قیدی
بھیڑ بکریوں سے بھی بُری بد تر حالت میں لاک اپ سے بصورت پولیس گاڑی میں
منتقل کئے جاتے ہیں تو ان کی حالت قابل رحم و دیدنی ہوتی ہے ، ایک کے اوپر
ایک چڑھائے جانے والے انسان نما جانور ، لدے ہوئے کسمپرسی کی تصویر بنے،
انتہائی قابل رحم حالت میں ٹھونس دئیے جاتے ہیں ،پولیس تھانوں میں پہلے ہی
اُن پر انسانیت سوز سلوک و تشدد کیا جاتا ہے جس کے بعد کورٹ لاک اپ میں رہی
سہی کسر پوری کردی جاتی ہے ، لیکن بد قسمتی کا سفر یہیں پر آکر ختم نہیں
ہوتا بلکہ جیسے تیسے ، کسی نہ کسی جب یہ قیدی جیل پہنچ جاتے ہیں تو ان قیدی
کی چھانٹی شروع ہوجاتی ہے ۔ یہ عمل "ملائحظہـ" کہلایا جاتا ہے جو عموما
جیلر یا ڈپٹی سپریڈینٹ لیتا ہے ، لیکن ا سے پیشتر جیل نتظامیہ کی جانب سے
معمور قیدی انھیں جانوروں کی طرح ہانکتے ہوئے کبھی ایک سرکل ، تو کبھی
دوسرے سرکل لے جاتے ہیں ، انھیں ایڑیوں کے بل گھنٹوں بیٹھاکر قمیض کا پچھلا
دامن ہاتھوں میں پکڑایا جاتا ہے۔جوڑی کی شکل میں ترتیب کے ساتھ انھیں
گالیوں اور تھپڑوں کی مار سے جیل کے نظم و ضبط کے حوالے سے بتا یا جاتا ہے
، بعدنماز مغرب جب جیل انتظامیہ ملاحظہ کے بعد ان سے کیس پوزیشن کے ساتھ ،
ان کے معاشی حالات کا تخمینہ اپنے لئے لگاتی ہے تو قیدی کے تصور میں بھی
نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ آگے چل کر کیا ہونے ولا ہے۔قیدی سمجھتا ہے کہ شائد
اس کی آزمائش پوری ہوگئی ہے لیکن وہ بے خبر نہیں جانتا کہ اس کی اصل آزمائش
تو اب شروع ہوئی ہے ، اسے "کراٹین"المعروف چکر میں لے جایا جاتا ہے اور پھر
وحشی ،جلاد و سفاک پُرانے قیدیوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جیسے جیل انتظامیہ
نے خصوصی طور پر مقرر کیا ہوتا ہے،عمومی طور پر یہ مخصوص بیرکیں کراٹین
کہلائی جاتی ہیں اور انھیں ایک صوبیدار کے ہاتھوں ہفتہ وار بھاری رقم پر
فروخت کردیا جاتا ہے ، وہ صوبے دار انتہائی معمولی کمیشن پر یہ ٹھیکہ جیل
کے ہی ایک ایسے قیدی کو فروخت کردیتا ہے جو سفاکیت اور ظلم و ستم میں مہارت
رکھتا ہو ۔
پٹیل کہلائے جانے والے یہ قیدی ٹھیکدار ان پر ظلم کے جتنے پہاڑ توڑ سکتا ہے
وہ ستم ڈھاتا ہے۔ رقم کے تقاضے کیلئے نئے آنے والے قیدیوں کے سر کے بال پکڑ
کر زمیں پر مارا جاتا ہے ، لیٹرین کی صفائی ، بیرک میں جھاڑ پونچھ کرانا ،
جھاڑو لگانا ، غلاظتوں کا صاف کرنا ، رفع حاجت کے لئے جانے سے روکنا ، منہ
ہاتھ دھونے پر پابندی ،کمر ، کنپٹی پر سخت دوہتھڑ مارنا ، کہنیوں سے پشت پر
ضربیں لگانا ، پاؤں کے تلوں پر بید مارنا ہاتھوں کی انگلیوں کو پیروں تلے
دبانا ، غرض یہ ہے کہ تشدد کے جتنے ہتھیار کسی کے علم میں ہے وہ اس نئے آنے
والے قیدی پر آزمائے جاتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب
تک اس کے گھر والے ان کی مطلوبہ رقم ان کو فراہم نہیں کردیتے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ویسے تو اکثر جیلوں میں قیدیوں کے فوم کی سہولت میسر
نہیں ہے لیکن کراٹین میں روزانہ کی بنیادوں پر فون لایا جاتا ہے اور قیدی
کے ڈریعے فون کراکر ان کے اہل خانہ کو دہمکیاں دی جاتی ہے کہ اگر ان کی
مطلوبہ رقم فراہم نہیں کی گئی تو وہ اس قیدی کے ساتھ وی سلوک کریں گے جس کا
وہ تصور بھی نہیں کرسکتے ، پھر اس قیدی پر اس قدر تشدد کیا جاتا ہے کہ اس
چیخیں آسمان تک سنائی دیتی ہیں اور جب اس قیدی کے اہل خانہ اپنے پیارے کی
چیخیں ٹیلی فون ریسور پر سنتے ہیں تو ان پر قیامت طاری ہوجاتی ہے۔ان کی بے
بسی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ کس طرح ایسی وقت اُڑ کر جیل پہنچ
جائیں اور اپنے عزیز کو جیل میں ہونے والے انسانیت سوز ظلم سے بچا لیں ۔
عمومی طور پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی غریب قیدی اُتنی رقم کا بندوبست
نہیں کرپاتا جو کراٹین انچارج کی جانب سے ڈیمانڈ کی جاتی ہے تو ملاقات روم
میں سر عام ایسے گھر والوں کے سامنے انتہائی سفاکیت کے ساتھ تشدد کا نشانہ
بنایا جاتا ہے اور ملاقات روم کے باہر ایک پولیس اہلکار کھڑا ہوکر انکے پاس
جتنی بھی رقم ہوتی ہے زبردستی چھین لیتا ہے کہ باقی رقم کا اگلے دن بندوبست
کرو ، ورنہ اس سے بھی بُرا سلوک کیا جاتا رہے گا۔ قیدی کے گھر والے انتہائی
مجبوری میں جیسے تیسے رقم کا بندوبست کرتے ہیں ، منت سماجت کرتے ہیں اور
ہاتھ پاؤں پڑ کر اپنے عزیز قیدی کی جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں، روتے ہیں
پیٹتے ہیں ، آہ و فغاں کرتے ہیں ، لیکن ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں
ہوتا۔
راقم کو خود ایک جیل اہلکار ، جو کہ ایک کراٹین کا انچارج ہے ، بتایا کہ
ایک بار لیاقت آباد سے تعلق رکھنے والے تین بہنوں نے اپنے بھائی کو کراٹین
میں تشدد سے بچانے کیلئے رقم نہ ہونے کے سبب اپنی عزتیں فروخت کرنے کا
فیصلہ کرلیا تھا ، جس پر اسے رحم آیا۔لاتعداد ایسے واقعات ہیں جن کا تذکرہ
محدود سطور میں نہیں کیا جاسکتا ، ایسے واقعات کیشکایات بھی متعلقہ اداروں
میں نہیں کی جاسکتی کیونکہ قیدی جیل میں اس انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہوتا
ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جیل کسٹڈی بھیجنے والے جج و مجسٹریٹ کا فرض بنتا ہے
کہ چودہ دن کے جوڈیشنل ریمانڈ کے بعد جیل جانے والے قیدیوں کی اپنے کورٹس
میں حاضری کو یقینی بنائیں اور جس طرح تھانے سے لائے جانے والے ملزمان سے
پولیس تشدد کے حوالے سے دریافت کرکے فائل میں لکھا جاتا ہے ، ایسی طرح جیل
سے لائے جانے والے قیدیوں سے بھی پوچھا جائے کہ انھیں وہاں مارا پیٹا گیا
ہے کہ نہیں ؟ ۔ ان سے بھتہ رشوت وصول کی گئی ہے کہ نہیں ؟ انھیں جیل منیوئل
کے مطابق سہولت دی گئی ہے کہ نہیں ؟۔
کراٹین سمیت عام بیرکوں کی حالت زار سے ہر جج ، مجسٹریٹ ، ہائی کورٹس،
سپریم کورٹس کے جسٹس و چیف جسٹس صاحبان اچھی طرح آگاہ ہیں ، لیکن اس کے
باوجود ان کی چشم پوشی کو کیا کہا جائے ؟۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قیدیوں کے
حقوق کا خیال اسلئے رکھا جائے کیونکہ انھیں دوبارہ اسی معاشرے میں واپس
آناہے اور انھیں اپنے احسا س محرومی کا انتقامی جذبہ ابھارنے کے لئے جواز
فراہم نہ ہواور جیل انتظامیہ کو بھی خوف خدا کرے انھیں زندگی بھر زندہ نہیں
رہنا ، بلکہ مرکر اﷲ تعالی کو جواب بھی دینا ہے۔اپنے اعمال کو دنیاوی مفاد
تک محدود رکھ اپنی آخرت کو تباہ مت کریں۔اﷲ تعالی بھی ان ہی لوگوں پر رحم
کرتا ہے جو اس کی مخلوق پر رحم کرتے ہیں۔ڈسٹرکٹ جج ، ہائی کورٹ کے جسٹس
صاحبان کم از کم ہفتے میں ایک بار اچانک جیل میں کراٹین کا دورہ ضرور کیا
کریں۔آپ کا یہ عمل قیدیوں پر ہونے والے انتہائی انسانیت سوز ظلم کو روکنے
میں معاون ہوگا بلکہ ملزمان کے احساس انتقام کے جذبے کو بھی سرد کرکے ختم
کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ |