میرے آقا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم تشریف فرما ہیں آپ
کے سامنے جنگی قیدیوں کو پیش کیا گیا، ان قیدیوں میں ایک نوجوان لڑکی بھی
تھی جسکے سر پر چادر نہ تھی۔ جب نگاہ محمد صلی الله علیہ وسلم اس پر پڑی تو
میرے آقا نے اپنے کندھے سے مزمل کی وہ کملی اتاری جسکی قسمیں خالق کائنات
اٹھاتا ہے اور اس نوجوان لڑکی کے سر پر ڈال دی، ایک صحابی نے عرض کیا کہ
آقا یہ تو کافر کی بیٹی ہے۔ میرے آقا نے فرمایا بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے چاہے
کافر کی کیوں نہ ہو۔ یہ منظر دیکھ کر اس لڑکی کی آنکھوں سے پانی چھلک پڑا
اور اس نے کہا کہ میں سخی حاتم طائی کی بیٹی ہوں ، زمانہ میرے باپ کی سخاوت
کے قصیدے پڑھتا ہے لیکن یا محمد صلی الله علیہ وسلم آپ تو حاتم کے بھی حاتم
ہیں۔ آج اسی محمد صلی الله علیہ وسلم کے امتی کہلوانے والوں کے ہاتھوں قوم
کی بیٹیوں کی چادر عصمت تار تار ہو رہی ہیں، عصمت دری کے ان واقعات میں
اضافہ ہو رہا ہے، آج کا مضمون لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آج میڈیا پر خبر دیکھی
کہ درندوں نے کمسن بچی کے ساتھ منہ کالا کیا اور اس کلی کو کھلنے سے پہلے
ہی مسل دیا۔ یہ آرٹیکل لکھنے کے دوران اعداد و شمار کے ادراک کے لئیے میں
نے پنچاب پولیس کی ویب سائیٹ دیکھی، جسکے مطابق جنوری ٢٠١٤ سے مارچ ٢٠١٤ تک
٥٧٠ ریپ کے کیسز رجسٹرڈ ہوئے صرف گڈ گورننس کے صوبے پنچاب میں۔ یہ وہ
مقدمات ہیں جو درج ہوئے، میں اپنے پولیس کے نظام کو بخوبی جانتا ہوں جسکی
بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے ریپ کے واقعات ایسے بھی ہوں گے جو
متاثرہ فریق نے بدنامی و رسوائی کے ڈر سے درج ہی نہیں کروائے ہوں گے اور
بیشمار ایسے بھی ہوں گے کہ جن میں پولیس نے بھاری رشوت کے عوض ملزمان کے
ساتھ مل کر متاثرین پر دباؤ ڈال کر سب سیٹل کروا دیا ہوگا۔ صد افسوس ٣٥ سال
سے پنچاب پر حکومت کرنے والے پولیس کے نظام کو نہ بدل سکے اور نہ یہ بدل
سکتے ہیں کیونکہ یہ پولیس کے ذریعہ تو الیکشن جیتتے ہیں اور اپنی پسند کے
افسران کا تقرر کرتے ہیں۔ جہاں قابلیت معیار نہ ہو اور میرٹ کی بجائے ذاتی
پسند و ناپسند پر تقرر و تبادلے ہوں اس معاشرے میں انصاف کہاں پنپ سکتا ہے۔
آج کا دور انفرمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے جسکی بدولت دنیا تیزی سے ترقی کی
منازل طے کر رہی ہے اور دنیا سکڑ کر گلوبل ویلج بن گئی ہے، جو اقوام نظام
شمسی پر کمندیں ڈالنے کا سوچ رہی ہیں بلاشبہ انکی اکثریت ٹیکنالوجی کا مثبت
استمعال کرتی ہے۔ ہمارا دنیا کی ایجادات میں کنٹری بیوشن صفر ہے اور جہاں
تک مجھے یاد پڑتا ہے تو ہماری آخری ایجاد چارپائی اور موڑھا تھی ، اگر
ہمارے دامن میں ایجادات و ٹیکنالوجی نہیں تھی تو پھر بھی ہم مغرب کی
ایجادات کا مثبت و صحیح استمعال کرکے ترقی کی منازل ناصرف طے کر سکتے تھے
بلکہ ایک مہذب قوم و معاشرہ کہلا سکتے تھے ، لیکن دنیا سے مستعار لی ہوئی
ٹیکنالوجی کا منفی استمعال کر کے تنزلی ، بے راہروی، گمراہی و ضلالت کی اس
اتھا گہرائی میں جا گرے ہیں کہ انسانیت بھی شرما رہی ہے۔ عورتوں اور کمسن
بچیوں کے ساتھ درندگی کی ووجوہات میں سے ایک ٹیکنالوجی کا غلط استعمال بھی
ہے۔ انٹرنیٹ کا منفی استمعال دنیا بھر میں سب سے زیادہ وطن عزیز میں ہوتا
ہے، انٹرنیٹ معلومات اور علوم کا منبہ ہے میری قوم کے جوانوں نے پورن مویز
کا خزانہ سمجھ لیا اور موبائل سے تصوریں اور مویز بنا کر اسے بلیک میلنگ کا
ایک آلہ بنا ڈالا، اور رہی سہی کسر فیس بک سے نکال دی، میں خود ان تمام
ٹولز کا یوزر ہوں لیکن میں انکے مثبت استمعال کا حامی ہوں، ریاست بھی چیک
اینڈ بیلنس رکھتی ہے لیکن ہمارے ہاں چونکہ ریاست لمبی چھٹی پر ہے ایسے
حالات میں والدین کو اپنی اولاد کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہئیے اور انکی
اچھی تربیت کریں۔ اصل میں بحثیت قوم مجموعی طور پر ہم اپنی ذمہداریاں ادا
نہیں کررہے، اساتذہ و علماء کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئیے اور قوم کی
کردار سازی کرنی چاہئیے۔ اور آخر میں ان عصمت دری کے واقعات میں اضافہ کی
سب سے بڑی وجہ کریمنل جسٹس سسٹم میں بیشمار خامیوں کا ہونا ہے، جزاوسزا کا
نہ ہونا۔ اگر آپ جزاوسزا کا نظام بہتر کریں گے اور سب کے لئیے قانون کو
برابر کر دیں گے تو مجرموں کو سزا کا خوف ہوگا۔ تفتیش کے نظام کو جدید
سائنسی خطوط پر استوار کریں، فرینزک لیبز کا سہارا لیں۔ آخر میں اسلامی
نظریاتی کونسل سے درخواست کروں گا کہ شادیوں کے پرمنٹ بانٹنے کی بجائے ان
سلگتے ہوئے مسائل پر کام کریں، قوم تباہ ہو رہی ہے۔ ڈی این اے پر کام کریں
اور اس پر اجتہاد کریں وقت کی اہم ضرورت ہے ۔۔۔۔ پیوستہ رہ شجر سے امید
بہار رکھ ۔۔۔ |