جینا اور کھل کے جینا اور جی بھر کے من مرضی کے مطابق
جینا ہی ہے، اصل جینا اگر سب کو دیکھ کے سب کی سن کے سب کا سوچ سوچ کے اگر
جینا پڑا تو یہ جینا بھی بھلا کیا جینا ہوا۔ جینا ہے تو اس طرح جیا جائے
جیسا ہر کوئی چاہتا ہے آزاد،خوش، پر جوش اور من موجی بن کر۔ زندگی ایک ہی
دفعہ ملی ہے اگر ایک دفعہ بھی اس کو دل بھر کر اور رج کر نہ جیا تو پھر آخر
اس ایک دفعہ کی ملی، زندگی کو بربا د ہی تو کیا۔
برباد کرنے کے واسطے انسان کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے پیسہ، صحت، دولت اور وقت
ان سب چیزوں کی قلت و فراوانی ہو بھی اگر تو ان میں سے کچھ نہ کچھ ایک
تناسب سے فطرت ہر انسان کو ہی عطا کئے ہوئے ہے۔ اسی لئے انسان کے پاس اگر
تو کچھ ہے تو انسان کو حق ہے کہ رج کر استعمال کرے ۔ انسان کو زندگی ملی ہی
تو مستی کرنے کے لئے ہے۔
اکثریت کو ہی آزادی و خود مختاری کام سے آزادی والی زندگی بے حد روشن اور
پر سکون نظر آتی ہے آخر کو دن بھر جل جل کر کون کام کرے اور سر کھپائے اسی
لئے وہ تمام زندگیاں جو بغیر پابندی اور من موجی کیفیات میں گزاری جارہی
ہیں دوسروں کو بے حد آئیڈیل اور اعلی نظر آتی ہیں۔
ہم نے آزاد زندگی کا مطلب وہ نہیں سمجھا جو کہ اصل میں ہے آزادی یا زندگی
کو جینے سے مراد صرف یہ ہے کہ اپنی زندگی میں جو کام کرنے کی صلاحیت فطرت
نے ودیعت کی ہے اس کو کھوجا، پرکھا، نکھارا، سنوارا اور پھر استعمال میں
لایا جائے۔ جب آپ کام خواہ کوئی بھی کام ہو اپنے ٹیلنٹ اور صلاحیت کو مد
نظر رکھ کر کرتے ہیں تو خود ہی کام آپ کے لئےآسان اور دلچسپ ہو جاتا ہے۔ آپ
زندگی کو کام کو بوجھ سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں آپ اپنے کام کو کرتے ہوئے جو
خوشی اور سکون محسوس کرتے ہیں در حقیقت یہ ہی سکون اور آزادی ہی تو زندگی
کو جی بھر کر من موجی بن کر جینا ہے۔
خواہ ڈاکٹر ہو پینٹر ہو ٹیچر ہو جو کوئی بھی اپنی زندگی میں جو بھی کام
کرنے کی تڑپ محسوس کرتا ہو اور پھر اُسی کام کو اپنائے اور پھر اُس زندگی
کو اس کام کے لئے وقف کر کے جئے بس زندگی گل و گلزار ہوگئی۔ انسان اشرف
المخلوقات ہے اسی وجہ سے کہ وہ سوچ سکتا ہے اور انسان کا مقصد تخلیق یہی ہے
کہ انسان دوسروں کی خدمت کرتے ہوئے جئے کوئی بھی کام کرے بس ضروری یہ ہے کہ
نیت اور مقصد یہ سمجھا جائے کہ مخلوق کی خدمت کرنی ہے اور خدا پنی رحمتیں
اور برکتیں اس انسان پر نچھاور کرنے لگتا ہے۔
|