پاکستان چین دوستی

پاکستان چین دوستی کو اس سال 63 سال مکمل ہو رہے ہیں،پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف حال ہی میں گوادر گئے،انہوں نے کہا ہے کہ گوادر فری پورٹ بنے اور پاکستان چین اقتصادی راہداری کے نتیجے میں گوادر دبئی، سنگاپور اور ہانگ کانگ کی طرح فری پورٹ بن سکتا ہے۔پاکستان چین اقتصادی راہداری کی بات گذشتہ کافی عرصے سے ہو رہی ہے مگر اس منصوبے کے حوالے سے موجود داخلی اور خارجی خدشات اور تحفظات اپنی جگہ ہیں اور ان سب کی موجودگی میں کیا گوادر کو سنگاپور بنانے کا خواب یا بلوچستان کی قسمت بدلنے کا خواب حقیقت بن سکے گاٖ؟پاکستان چین اقتصادی راہداری (پی سی ای سی) چین کے شمال مغربی شہر کاشغر کو پاکستان کے جنوبی حصے سے ملاتی ہے، جس کے ذریعے چین کا رابطہ گلگت بلتستان سے ہو کر بلوچستان میں موجود گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ کے ذریعے بحیرہ عرب تک ہو سکتا ہے،پی سی ای سی منصوبے کا مقصد مواصلات کے علاوہ سمندری اور زمینی تجارت میں اضافہ کرنا ہے،گوادر بندرگاہ کا انتظام ان دنوں ایک چینی سرکاری کمپنی کے پاس ہے اور یہ ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے جو آبنائے ہرمز کی جانب جاتا ہے۔ آبنائے ہرمز خود تیل کی سمندر کے ذریعے نقل و حمل کا اہم راستہ ہے،یہ کوریڈور چین کو مغربی اور وسطی ایشیا سے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی سہولت دیتا ہے اور ساتھ ہی اس سے پاکستان کے مالی حالات میں بہتری کی توقع بھی کی جا رہی ہے،پاک چین اقتصادی کوریڈور کا مقصد پاکستان کی سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائنوں کی تعمیر نو کرنا ہے تاکہ سمندر کے ذریعے سامان کی ترسیل ہو سکے،چین پاکستان میں اس وقت 120 منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں 15 ہزار تک چینی انجینیئر اور تکنیکی ماہرین موجود ہیں،اسی کے حصے کے طور پر اقتصادی زون، صنعتی پارک، بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبے بھی شامل ہیں،چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعاون اس وقت 12 ارب ڈالر ہے جو چین کے دیگر ملکوں (جیسا کہ بھارت) کے ساتھ تجارتی تعلق کے مقابلے میں کم ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی توازن اس وقت چین کے حق میں ہے جو پاکستان کے ساتھ چین کی دور رس تعلقات کی سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔دس ہزار پاکستانی طلبہ چین میں زیرِ تعلیم ہیں اور اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں چینی پاکستانی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں، جیسے کہ اسلامک یونیورسٹی اور نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجز، جہاں ایک کنفیوشس سینٹر بھی قائم ہے،پی سی ای سی منصوبے کا مقصد مواصلات کے علاوہ سمندری اور زمینی تجارت میں اضافہ کرنا ہے اور یہ پاکستان کو چینی علاقے کاشغر سے ملائے گا۔پی سی آئی کا ایک اہم مقصد پاکستانی اور چینی لوگوں کے درمیان ثقافتی تبادلہ بڑھانا ہے۔ یہ اپنی قسم کا پہلا ادارہ ہے جس نے چینی زبان کو پاکستانی تعلیمی اداروں کے نصاب میں متعارف کیا ہے۔ پی سی آئی کے مطابق ملک میں تین ہزار طالب علم چینی سیکھ رہے ہیں۔دفاعی تعاون کے علاوہ اس معاہدے کے بعد گذشتہ ایک سال کے دوران توجہ اب ثقافتی اور اقتصادی تعاون پر ہے۔رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایک تہائی چینی پاکستان کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں جبکہ 23 فیصد بھارت کے بارے میں اور 42 فیصد امریکہ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔ دوسری جانب 2013 میں تحقیقاتی تنظیم پیو کی جانب سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق 81 فیصد پاکستانی چین کو پسند کرتے ہیں،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرق کس بات کی وضاحت کرتا ہے،کیا اس کی وجہ پاکستان میں سلامتی کے حوالے سے غیر پائیدار صورت حال ہو سکتی ہے، جس سے ماضی میں چینی بھی متاثر ہوچکے ہیں؟ "یاد رہے کہ چین کا پاکستان کی فوجی خود انحصاری میں نمایاں کردار رہا ہے اور 2008 سے 2013 کے درمیان آدھے سے زیادہ چینی ہتھیاروں کا وصول کنندہ پاکستان تھا،مئی 2014 میں جہاں نواز حکومت نے اپنا پہلا سال مکمل کیا ہے وہیں چین پاکستان تعلقات کو 63 سال پورے ہو رہے ہیں اور پی سی ای سی جیسے بڑے منصوبوں پر کام آگے بڑھ رہا ہے،اس حوالے سے سکیورٹی خدشات پر بھی بظاہر قابو پانے کی حکمتِ عملی نظر آتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطے کے بدلتے حالات میں یہ حکمتِ عملی کس حد تک کارآمد ہو گی اور پاکستان جہاں اپنے داخلی سلامتی کے خطرات سے دوچار ہے کیا وہ ایک دوست ملک کے مفادات کی حفاظت کر پائے گا؟

Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 62482 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.