غورکیاجائے توہمارے معاشرے سے اخلاقی خوبیاں جیسے
زہدوفقر، سچ، تقویٰ، حسن گفتار، صدق مقال، صبر، توکل، قناعت، شکر، سخاوت،
لوگوں پرشفقت، حسن ظن ، عدل وانصاف، برابری ومساوات، ادب، اوراخلاص وغیرہ
ختم ہورہی ہیں اور اس کی جگہ اخلاق رذیلہ بڑی تیزی سے ہمارے اندرپیوست
ہورہے ہیں۔ اور اب اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہوگئی ہیں کہ اس سے چھٹکارا پانا
بھی مشکل نظرآتاہے۔ معاشرے کے کم وبیش تمام افراداخلاقی معیارات کو بری طرح
پامال کررہے ہیں۔ اگرہم ان بداخلاقیوں کوگنناشروع کردیں تو ایک بڑی فہرست
سامنے آجائے۔ منافقت ایک ایسامرض ہے جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے
رکھاہے؛ دل پہ کچھ زبان پہ کچھ۔ کسی کے قول وفعل پربھروسہ نہیں آتا۔ ہماری
جانوں میں تکبراورفرعونیت کازہر گھول رہاہے، کوئی کام ریاکاری سے خالی
نہیں، شہوت پرستی عام ہے، حرص وطمع نے توہمیں بالکل ہی اندھا بنادیاہے، حسد
کرتے کرتے ہمارے دل ودماغ جل گئے، معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑااور غصہ
ہمارامعمول بن چکا ہے، اپنے کوباوقاراورعزت مندبنانے کے لیے ہم غریبوں اور
کمزوروں پر ظلم کاراستہ اختیار کرتے ہیں، شہرت اور منصب کے حصول کے لیے تو
ہم تمام ترمعاشرتی ، اخلاقی، قومی اورمذہبی حدود سے نکل جاتے ہیں، طلب
دنیاکاتوبس کیاکہئے؛ ہماراصبح وشام اور اٹھنابیٹھنا اسی کے لیے وقف ہے،
جہاں جاؤ اورجس کو سنو بس یہی فکر لاحق ہے۔ افسوس کامقام ہے کہ مذکورہ بری
عادات واطواراب ہمیں بری نظرہی نہیں آتیں، خودتودل میں احساس نہیں کوئی
دوسرا سمجھائے بھی تو غصہ آتاہے۔ بقول رومیؔ :
چوں زعادت گشت محکم خوئے بد
خشمت آیدازکسے کو واکشد
(جب تیری کوئی بری عادت جڑپکڑلیتی ہے تو اس بری عادت کو دورکرنے پرہی تجھے
غصہ آتاہے) ایک عجیب کیفیت دیکھنے کوملتی ہے ، ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ہم
اپنے مذہبی وثقافتی اقدارکے پیش نظرایسے بااخلاق اور سیدھے سادھے مسلمان
ہوتے کہ ہم سے کوئی خلاف ادب ، خلاف قانون اور خلاف اخلاق عمل سرزد ہی نہ
ہوتا اوراگرہوتا بھی تو ہم شرم محسوس کرتے ہوئے اس پرپریشان اور نادم ہوتے
اور ساتھ ساتھ معاشرے کی طرف سے عتاب وسرزنش کی نوبت بھی آتی، لیکن معاملہ
بالکل الٹ ہے ؛ ہرقسم کی بداخلاقیوں اور برائیوں کے ارتکاب کی باوجود ہم
فخرکرتے ہوئے ہنستے ہیں اور اپنے کیے کی پرواہ ہی نہیں کرتے، اس
پرمستزادلوگوں سے داد وصول کرنے کی خواہش بھی ہوتی ہے۔ دوسری طرف معاشرے
کاکوئی فرداگرتکلف کی زندگی سے بچتے ہوئے سادگی اختیارکرے، جھوٹ نہ بولے،
منافقت سے بچے، عہد کا پابندرہے، خلوص کامظاہرہ کرے اور دیگرغلط کاموں سے
اپنے کوبچائے رکھے تو لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ کیا نیا طریقہ بنایا
ہے، یہ ’’سادگی‘‘ آج کل نہیں چلتی، یہ شخص پبلک ڈیلنگ سے واقف نہیں۔ہمارے
معاشرے میں قدرو منزلت اور بزرگی کے بھی عجیب معیارات مقررہیں، شریف
وبااخلاق آدمی کی طرف توکوئی دیکھتابھی نہیں، اس کو معمولات زندگی کے دائرے
سے باہرتصورکیاجاتاہے۔ کسی کی عظمت وبرتری کا معیار مال ودولت اور نسب
پررکھا گیاہے، غریب ہے اور خود ساختہ نسبی یاخاندانی بلندی پرفائزنہیں تواس
کی کوئی حیثیت نہیں، دوسری طرف کوئی کتناہی نااہل اور خبیث الاخلاق ہو پر
مال ونسب کا مالک ہووہ ہمارآقابن جاتاہے۔ رات کو بسترپرلیٹ کرخوداحتسابی
اور اپناجائزہ لینے کاتو ہمیں عادت نہیں، اگرکچھ ہے بھی تو بس اس پر فخرکہ
آج کے دن کتناکمایا۔۔۔ دھوکہ دہی کے کیاچال استعمال کیے۔۔۔ شراب نوشی،
فحاشی اور فضولیات کو کتناانجوائے کیا۔۔۔ فلاں غریب ومزدور اور ماتحت
پرکتنی بدمعاشیاں دکھائیں۔۔۔ جھوٹ ومنافقت کاکیسا کھیل کھیلا۔ یہی تو چیزیں
ہیں کہ ہماری رگوں میں سرایت کرگئی ہیں۔ ہمیں یہ سوچ قطعاً نہیں آتی کہ آج
میں نے کتنے بھائیوں کے دل خوش رکھے، میرارب مجھ سے کتناراضی رہا، خدمت خلق
کے کتنے کام کیے، کہاں کہاں پراخلاقی معیارپرپورااترا، حلال وحرام کی تمیز
ہوئی یانہیں، اپنے سے ہٹ کرملک وقوم کے لیے کیاکچھ کرڈالا۔ افسوس کی بات ہے
کہ مذکورہ اصطلاحات کی بو تک ہم محسوس نہیں کرتے۔ میرے خیال میں ملکوں اور
قوموں کی ترقی کا رازاسی میں پنہاں ہے کہ خوداحتسابی اور اخلاقی معیار
پرتوجہ ہو ،پھرنہ تو کسی پولیس یا فوجی آنے کی ضرورت ہوگی اور نہ دربدر
ٹھوکریں کھاتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی نوبت آئے گی۔ تو لیجئے
ابھی سے سوچناشروع کیجئے، اپنے سے حساب کرلیجئے قبل اس کے کہ آپ سے حساب
وکتاب ہوجائے۔ |