جیلوں میں سہ فریقی طبقاتی نظام

کسی شخص کیلئے سب سے تکلیف دہ مرحلہ جب آتا ہے جب اس کے دوست ، احباب اور ساتھی اسے تکلیف ، دکھ پریشانی کے موقع پر ایسے اکیلا چھوڑ دیں ۔ آزاد دنیا اور جیل کی نگری میں واضح تفریق یہیں پیدا ہوتی ہے کہ جیل کو اصلاح خانے کے طور پر وہی لیتا ہے جسے اندازہ ہوجائےء کہ اُس کے عمل سے اِس کے ، قریب کتنے آئے اور دُور کتنے گئے۔حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ"جب تم پر مشکل وقت آئے تو یہ نہ دیکھو کہ کون کون کام آئے گا ، بلکہ یہ دیکھو کہ چھوڑ کر کون کون جائے گا"۔قید کی جیل کہانیوں میں مختلف کرداروں میں ملزمان آتے جاتے رہتے ہیں ۔ ویسے تو کسی قیدی کیلئے جیل میں وقت گزارنا ، دو معنوں میں لئے جاتے ہیں۔ایک تو کسی عادی مجرم کیلئے بہ حیثیت آرام گاہ اور دوسرا عام قیدیوں کیلئے خود کو جلدازجلد آزاد کروا کر اپنے مقدمات کو ختم کرنا۔

آزاد دنیا کی طرح جیل میں بھی تین طبقاتی نظام رائج ہیں جسے ہم بیرونی آزاد دنیا کی امثال سے سمجھ سکتے ہیں۔جیسے لوئر کلاس ، مڈل کلاس اور اپَر کلاس ۔اسی طرح جیلوں کا انتظام بھی ان ہی تین طبقاتی نظام کے تحت قائم ہے جہاں لوئر کلاس سے تعلق رکھنے والے وہ قیدی ہیں جن کی عمومی طور پر ملاقاتیں نہیں آتیں، ان کا پُرسان حال کوئی نہیں ہوتا،رشتے دار ان سے یا تو تنگ ہوتے ہیں یا پھر ان کی مالی استطاعت ہی نہیں ہوتی کہ وہ جیلوں میں جاکر اپنے قیدیوں سے ملاقات کے دوران پولیس کو بھاری رشوت دینے کے علاوہ ،اپنے قیدی کو اچھے خورد نوش یا شیا ضروریہ دے سکیں۔ ان لوئر کلاس قیدیوں کی حالت زار میں اکثر ان کے اپنے جرائم کا تعلق بھی ہوتا ہے ، جسے ہم آسان الفاظوں میں اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ آرام کیلئے جیلوں میں آتے ہیں ، دوئم اس ہی کیٹگری میں ایسے قیدی بھی ہیں جنھیں پولیس راہ چلتے پوائنٹ اسکورنگ کرنے کے لئے اٹھا کر مختلف نوعیت کے الزامات میں دھر کر بند کردیتی ہے۔ اسی بنا ء پر نئے آنے والے قیدی عدالتی بھیٹر چال سے واقف ہی نہیں ہوتے اور ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ مقمات کی سماعتیں نہ ہونے کے سبب معمولی نوعیت کے الزامات کے قیدی ، مقررہ جرم کی سزا کی حد سے بڑھ کر کئی گنا زیادہ سزا پالیتے ہیں۔زیادہ تر ایسے قیدی معمولی جرائم کی ذمے داریاں قبول کرکے کچھ مہنیوں میں رہائی پا لیتے ہیں یا پھر این جی او ان کے جرمانے بھر دیتی ، یاکسی خوشی یا اہم دن کے تہوار کے موقع پر حکومت کی جانب سے معافی بھی معمولی جرائم میں سزا یافتہ قیدیوں کو رہائی دلا دیتی ہے۔

سہہ فریقی طبقاتی نظام میں "مڈل کلاس قیدی"وہ ہیں جو پہلی بار کسی الزام کے تحت جیلوں میں آتے ہیں ، بے گناہ یا گناہ گار ہوں ، لیکن ان کی وجہ سے ان کے لواحقین کو کافی اذیت اور سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سست عدالتی نظام کی بھیڑ چا میں اپنی معصومیت، نادانی کی وجہ سے شاطر اور پیشہ ور وکیلوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔نا دانستگی ی دانستی کا کوئی لفظ جیل کی ڈکشنری میں نہیں ہے۔یہاں مڈل کلاس قیدی کو عدالت کے رحم وکرم پر رہتے ہوئے اپنی ضمانتوں اور مقدمے سے بری ہونے کیلئے اپنی کل جائیداد سے محروم ہونا پڑتا ہے۔عموما مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے یہ قیدی پیشہ ور اور عادی جرائم پیشہ قیدیوں سے خائف رہتے ہیں اور ان کے ہر حکم کے آگے سر بجا لاتے ہیں۔عدالتوں تک جیل سے روانگی، لاک اپ ، عدالتوں سمیت جیل کے ہر موڑ پر انھیں اپنی عزت نفس کا خیال ہوتا ہے۔جو انھیں ہر موڑ پر بھاری رقم رشوت دیکر حاصل کرنی پڑتی ہے۔ہر کس و ناکس کے جائز و نائز مطالبا کو پورا کرنا انکی مجبوری و دردر سری کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ یہ عمومی طور پر سب سے مظلوم قیدی طبقہ ہوتا ہے جسے طحالتمجبوری جرائم پیشہ قیدیوں کے ساتھ ہی رہنا ہوتا ہے کیونکہ وہ خود بھی قیدی ہی ہوتا ہے۔انتہائی مجبوری میں ان کے ساتھ کھانا پینا ، اٹھنا بیٹھنا پڑتا ہے ، ج اس کی ساری زندگی کی شریف پوشی کا بھرم تاراج ہوجاتا ہے ۔جب حاضری کیلئے س کے کندھے سے کندھاملا کر جوڑی میں ایسا قیدی بھی جڑ جاتا ہے جو اپنی بد بو دار جسامت اور نشے کی بھبھکیوں سے اس کی عزت فس کو چورا چورا کردیتے ہیں۔اس لمحے اس کے دل سے صرف ایک دعا نکلتی ہے کہ کاش زمیں پھٹ جائے یا آسمان اسے نگل لے کہ عام زنادگی میں وہ ایسے افراد کے ساتھ بیٹھنا تو درکنار ، اگر وہ قریب سے بھی گذرتے تو بدبو کی وجہ سے ناک پر رومال رکھ لیا کرتے تھے۔لیکن آج شو مئی قسمت ان ہی کے ساتھ ایک لائن میں کھڑے ہوکر چائے ، کھانا اور سُونا پڑتا ہے۔شریف النفس قیدی تو اسے اپنے لئے باعچ عبرت سمجھ لیتے ہیں لیکن انتقام اور ذلے کے احساس کے تلے دبے اکثر قیدی اپنی رہائی کے بعد اپنی جل کی فرسٹریشن کو اپنے خود ساختہ اصولوں کے ساتھ خود پر لاگو کرکے وہی راستہ اختیار کر لیتے ہیں ،جس کا انھوں نے اس سے پیشتر کبھی تصور نہیں کیا تھا۔

سہہ فریقی طبقاتی جیل کے نظام میں "اپر کلاس"وہ قیدی کہلائے جاتے ہیں جنھوں نے جیل میں بھی اپنے لئے زندگی کی ہر آسائش کا بندوبست ، دولت کی طاقت یا سیاسی اثر رسوخ سے حاصل کیا ہوتا ہے۔عادی مجرموں اور مڈل کلاس قیدیوں سے ہٹ کر انھوں نے جیل مینوئل کے برخلاف اپنے لئے اچھی کوٹھریاں ، بیرکیں حاصل کیں ہوتیں ہیں۔سیاسی ، مذہبی جماعتوں نے اپنے کارکنان کے لئے الگ سیٹ اپ بنایا ہوتا ہے جس میں وہ عام قیدیوں سے ہٹ کر رہتے ہیں، ان کی جماعتیں یا تنظیمیں انھیں زندگی کی ہر اہم ضرورت ہر صورت بہم پہنچاتی ہیں۔صاف ستھرے لباس ، اچھے صاف کھانے سمیت ان قیدیوں کی اسیری ، دیگر جیل کے قیدیوں کے لئے قابل رشک و حسد ہوتی ہے۔ ایسے قیدیوں کو جیل میں"سیاسی"کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کے جرم کی نوعیت کیا ہے ، وہ گناہ گار ہے یا بے گناہ ہے ، وہ پڑھا لکھا ہے یا جایل ، وہ غنڈا ہے یا شریف ہے ، اس کا معیار ان تما باتوں سے بالاتر ہے یونکہ وہ اپَر کلاس طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔عادی مجرم یا سیاسی قیدی با ربار جیل میں آنے جانے کی بنا ء پر جیل کے تمام قوانین اور مروجہ اصولوں سے مکمل واقف ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ اپنے جیل میں آنے کے بعد نئے دورے یں دوبارہ وہ تم،ا آسائشیں اس طرح حاصل کرلیتے ہیں کہ جیسے یہ سب ان کا بنیادی حق ، اور جیل انتظامیہ کا انھیں سہولیات فراہم کرنا فرض اولیں ہے۔

سہ طبقاتی نظام کا ثر آزاد و قید کی دنیا میں با آسانی نظر آتا ہے اور اسے محسوس کیا جات ہے ، اسے ذہینوں میں اتار لیا جاتا ہے اور جذباتی ہوکر سوچا جاتا ہے کہ"جیل تو جیل ہوتی ہے,اس میں آزاد دنیا سے زیادہ طبقاتی تفریق زیادہ کیوں ہے؟۔لیکن میرے تئیں یہاں تما قصور سسٹم کا ہے ، ہم نے اپنے گرد جو حصار بنایا ہوا ہے اورپوری دنیا کو جن طبقاتی تفریق میں بانٹا ہوا ہے وہ دراصل اپنے مکمل اثر و نفوذ کے ساتھ زدگی کے ہر شعبے میں قائم دائم ہے ،جس طرح زندہ انسان اپنے طبقاتی فرق کے ساتھ مرنے کے بعد دفن ہونے کیلئے بھی طبقاتی قبرستانوں کا انتخاب کرتا ہے اسی طرح اس طبقاتی فرق کا مظاہرہ جیل کی دنیا میں بہ اتم نظر آتا ہے۔

سہ فریقی طبقاتی تفریق کو نہ تو جیل میں ختم کرنا آسان ہے اور نہ ہی اسے اپنی زندگی سے باہر نکال پھینکا جاسکتا ہے۔کیونکہ یہی تو وہ طبقاتی کشمکش ہے جس سے ایک غریب مڈل کلا ، لوئر کلاس انسان بر سر پیکار ہے ، اپر کلاس طبقے نے جہاں زندگی اور نشوونما کے ہر چشمے پر ان کا حق غضب کر رکھا ہے اسے صرف ایک جگہ سے ختم کرنا ناممکن ہوگا۔ سہ فریقی طبقاتی نظام کو صرف اسلام کے رہنما اصلوں سے ہی بدلا جاسکتا ہے ۔اسلام نے ہی محمو دوایاز کو ایک صف میں کھڑا کیا اور اسلامنے ہی گوروں کو کالوں پر فوقیت دینے سے روکا۔اسلام نے ہی معیشت کے بہتے سرچشموں پر سب نوع انسانی کیلئے برابر کا حق رکھا اور اسلام نے ہی سرمایہ داری و جبر کے نظام کو ختم کرنے کیلئے حقوق انسانیت کا درس دیا ، اسلام نے ہی احترام انسانیت میں بلا تخصیص یکسانیت کا قانوں دیا۔جیلوں میں ہزاروں لاکھوں قیدیوں کو جوڈیشنل ریمانڈ کے قانون کے نام پر سالوں سال بغیر سماعت رکھنا بنیادی حقوق کی کھلی خؒاف ورزی ہے، اسلام کے دئیے گئے سزا و جزا کے قوانین اور اصولوں کو اگر اپنا لیا جائے تو ہر انسان کو سستا اور جلد انصاف میسر آسکتا ہے ، جیلیں اصلاح خانوں میں تبدیل ہوسکتی ہیں ، ملزمان اور مدعیوں کو انصاف کے حصول میں حائل رکاؤٹیں اور اپنا حق ملنے کیلئے سالوں کا انتظار ختم ہوسکتا ہے۔سوچنا فضول نہیں ہے اگر اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرلی جائے تو گھر کے دروازے پر ہی ہر کسی کو انصاف مل سکتا ہے۔اسلام ایک آفاقی اور لاثانی دین ہے جو مصلحتوں سے بالاتر عام انسان سے لیکر خاص فرد تک بلا تخصیص ، رنگ و نسل انصاف بہم پہنچاتا ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744599 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.