آج کا آرٹیکل لکھنے کی وجہ یہ ہے
کہ بہت سے میرے کرم فرما مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ میں اپنی تحریروں میں
علماء کو تنقید کا نشانہ بناتا ہوں۔ میں نے اسلامی نظریاتی کونسل پر ضرور
تنقید کی تھی اور ساتھ یہ بھی بتایا تھا کہ تمام ملاں کو سیاسی رشوت دی گئی
اور اس میں بھرتی کیا گیا انکا علم اور میرٹ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
زندگی کے ہر شعبہ میں صحیح لوگ بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی ، سیاست کو ہی لے
لیجئیے قائداعظم بھی ایک سیاست دان تھے اور نواز و زرداری بھی سیاست دان
ہیں، قائد نے ملک بنایا اور انھوں نے ملک کو کھایا۔ قائداعظم نے اپنے ذاتی
اثاثے بھی ملک کے حوالے کر دیے اور نواز شریف نے ملک کے اثاثے میاں منشا کے
ذریعے نجکاری کے نام پر خود خرید لئیے۔ میڈیکل کے شعبہ کو دیکھ لیں ایم بی
بی ایس ڈاکٹر بھی موجود ہیں اور عطائی ڈاکٹر بھی اپنا ناصرف وجود رکھتے ہیں
بلکہ انکے پاس زیادہ رش ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی ان انسانیت کے قاتلوں کے خلاف
اگر لکھے تو اسے ڈاکٹروں کے مقدس پیشہ کے خلاف نہیں سمجھا جائے گا اسی طرح
علماء کے مقدس دستہ میں دکاندار قسم کے ملاں گھس بیٹھے ہیں جو کہ عالم نہیں
ہیں، لہذا انکی نشاندھی کرنا اور انکو اصل علماء سے جدا کرنا بہت ضروری ہے۔
اسی لئیے جب ان نیم ملاں حضرات کے خلاف میں لکھتا ہوں تو بعض احباب اسے
علماء کے خلاف تصور کرتے ہیں جو کہ زیادتی و ظلم ہے۔ آج اگر آپ اپنے اردگر
نظر دوڑائیں تو آپ کو بہت سے علماء ایسے بھی ملیں گے جنھیں ٹی وی نے عالم
بنایا ہے۔ یاد رکھیں علماء دو قسم کے ہوتے ہیں ایک علماء حق اور دوئم علماء
سوء یعنی ٢ نمبر۔ علماء حق تو احترام کے قابل ہیں جنکا ہمیشہ میں نے احترام
کیا ہے اور نیم ملاؤں پر تنقید کا موقع میں نے کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
ہیرے کی پہچان جوہری کو ہوتی ہے، علماء کی پہچان کرنے کے لئیے بھی صاحب علم
ہونا چاہئیے، ہماری غالب اکثریت ایک اچھے مقرر و خطیب کو ہی ایک اچھا عالم
سمجھ بیٹھتی ہے، مقرر جب اوپر نیچے ایک ہی ردیف و قافیہ کے الفاظ کی بارش
کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں واہ جی واہ کیا بات ہے کتنا بڑا عالم ہے۔ خیر ہم
ہیں ہی نرالے ڈیزل بلیک کرنے والوں کو بھی لوگ عالم سمجھتے ہیں، حکمرآنوں
کی چوکھٹ پر دوزانوں بیٹھنے والوں اور وزیر اعلی کی میٹنگ میں اسکی ایک
پیالی چائے پر بک جانے والوں کو بھی لوگ عالم سمجھتے ہیں ۔ اگر یہ علماء
ہیں تو تمھیں مبارک ، عالم نہ مسلم لیگی ہوتا ہے نہ پی پی کا جیالہ اور
تحریک انصاف کا ہمدم، عالم تو دین محمدی صلی الله علیہ وسلم کا پہرے دار
اور وقت کے جابر حکمرآنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ حق بلند کرنے
والا ہوتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کا جنازہ جیل سے نکلا مگر حاکم وقت کے سامنے
جھکے نہیں ، امام احمد بن حنبل کو سرعام کوڑے لگائے گئے مگر آپ نے وقت کے
شہنشاہ مامون کے مؤقف کو تسلیم نہ کیا اور اپنے فتوی پر قائم رہے۔ بنو عباس
کا وہ دور حکومت تھا کہ جس میں سورج طلوع ہوتا ہے تو سلطنت بنو عباس ہوتی
ہے اور جہاں غروب ہوتا ہے تو وہاں بھی انھی کی حکومت ہوتی ہے۔ اسی سلطنت کے
شہنشاہ ہارون الرشید نے مدینہ منورہ میں امام مالک رح سے کہا کہ آپ بغداد
تشریف لائیں اور میرے محل میں رہیں کیونکہ آپ سے میں حدیث پڑھنا چاہتا ہوں۔
امام مالک نے فرمایا اے ہارون تو مجھے غلام و اپنا درباری بنانا چاہتے ہو ،
میں نے محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی غلامی اختیار کر رکھی ہے اور انکی
غلامی میں ہوتے ہوے مجھے کسی اور کی غلامی اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ مجدد
الف ثانی شریعت کے عالم حق تھے آپ گوالیار کی جیل میں دو سال رہے قید و بند
کی صعوبتیں برداشت کیں مگر سلطان الہند جہانگیر کے سامنے گردن نہیں جھکائی۔
علماء حق کا بڑا مقام و شان ہے۔ علماء انبیا کے وارث ہوتے ہیں، عالم حق کا
رات کو سونا زاہد کے ساری رات جاگنے سے بہتر ہے۔
صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله
علیہ وسلم ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر تشریف فرما تھے ، آپ صلی الله علیہ
وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے علماء قوم کا دباؤ برداشت نہ کر سکے اور
انھی لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے پھر الله نے انکے دلوں کو بھی ملا دیا اور
سب ایک جیسے ہی ہو گے۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ پھر حضور صلی الله علیہ
وسلم نے ٹیک چھوڑ دی اور فرمایا مجھے قسم ہے الله کی جس کے قبضہ قدرت میں
میری جان ہے میری امت کے علماء ایسا کبھی نہیں کریں گے ہر حال میں نیکی کا
حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔ آج بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
کا درس دینے والے علماء موجود ہیں مگر میڈیا تک رسائی صرف دکاندروں کو دی
جاتی ہے۔ علماء حق کی قدر اور احترام کرنا چاہئیے ۔۔ |