تعلیمی ایمرجنسی،اساتذہ کے مطالبات اور3لاکھ پرائیویٹ سکول

پنجاب حکومت نے صوبے میں فوری طور پر تعلیمی ایمرجنسی آرڈیننس نافذ کردیا ہے، آرڈیننس کے تحت والدین پر بچوں کو سکول بھیجنا لازم ہوگا۔تعلیمی ایمرجنسی آرڈیننس کے مطابق 5 سے 16 سال تک کے بچوں پر تعلیم حاصل کرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے،سکول سے طالب علم کا نام خارج کئے جانے پر سکول کے سربراہ کو چھ ماہ قید یا 50 ہزار روپے جرمانہ ہوگا، جدید سکولوں کو اپنے اداروں میں 10 فیصد غریب اور مستحق بچوں کے لئے کوٹہ مختص کرنے کا بھی پابند بنایا گیا ہے۔

اہل پنجا ب کو حکومت کے صوبے میں فوری طور پر تعلیمی ایمرجنسی آرڈیننس نافذ کرنے کے عمل کی قدر کرنی چاہیے کیوں کہ اب بہت سارے لوگوں کو اپنا اپنا سکول بننے میں آسانی ہوگی اس تعلیمی ایمرجنسی آرڈیننس آڑ میں بہت سے سرکاری سکول بند ہونے والے ہیں۔تعلیمی ایمرجنسی آرڈیننس نافذ صرف صر ف سرکاری سکولو ل کیلئے ہے ۔تین لاکھ کے قریب پرائیویٹ سکولوں ریکارڈ حکومت کے پاس نہیں۔جن کی سرپرستی بھی بااثرافراد (رکن قومی یا رکن صوبائی اسمبلی)کررہے ہیں۔اسلئے پرائیویٹ سکولوں کے مالکان کو ئی پریشانی نہیں۔

پہلے ہی پاکستان میں کئی تعلیمی نصاب نافذ ہیں۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان اپنے مرضی کے مطابق تعلیمی نصاب پڑھتے ہیں۔جس کا گورنمنٹ کے نصاب سے کو ئی تعلق نہیں۔سرکاری سکول کے اساتذہ پرکئی بار پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی جانب سے الزامات لگائے گئے ۔لیکن حکومت نے کو ئی نوٹس نہیں لیا۔بلکہ وہاں سے سکول ہی بند کردیا۔

ٹیچرز یونین نے ضلعی محکمہ تعلیم اور صوبائی حکومت کی جانب سے اساتذہ کے مسلسل استحصال، معقول معاوضوں کی عدم ادائیگی اور جائز مطالبات کی عدم منظوری کے خلاف بچوں کو تعلیم و تربیت جیسے اعلیٰ مقاصد سے ہٹ کر پولیو مہم، مردم شماری اور الیکشن سمیت دیگر سرکاری محکمہ جات میں ڈیوٹیاں دینے والے اساتذہ کی قیادت کلمہ حق کہنے اور اصولی موقف پر متحد ہیں اور عدالتی احکامات کی دھجیاں اڑانے والے عناصر کے خلا ف زنجیر عدل ہلاتے رہیں گے ۔

کئی ماہ سے مرد اور خواتین اساتذہ کی ایک بڑی تعداد مختلف جگہوں پر اپنے مطالبات کیلئے احتجاج کرتی نظر آتی ہے۔ شرکاء نے اس موقع پر اپنے مطالبات کے حق میں پلے کارڈز اور بینرز بھی اٹھا رکھے ہوتے ہیں۔ اساتذہ نے اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بھی لگا تے ہیں۔ سرکاری سکولوں سے این جی اوز کی مداخلت کو ختم کیا جائے، پرائمری سطح کے اساتذہ کو بلدیاتی نظام کے تحت نہیں ہونا چاہیے۔ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ کرکے دیہی اور شہری الاؤنس کو برابر کیا جائے۔ مسجد مکتب سکولوں کے خاتمے سے اساتذہ کی بڑی تعداد بیروزگار ہو چکی ہے۔حکومت کو اس سلسلے میں بھی سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔

عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چاہے جمہوری دور ہو کہ غیر جمہوری دور کام ہمیشہ سے مشکل تھے اور ہیں۔جہاں تک عدلیہ کے اہم فیصلوں پر مخلصانہ اور من و عن عمل درآمد کا معاملہ ہے تو ہر حکومت صرف ان پر مکمل عمل درآمد کرتی ہے جن سے اس کا مفاد براہِ راست متاثر نہ ہو۔زیادہ تر فیصلے ٹال مٹول ، قانونی موشگافیوں اور پراسرار خاموشی کی دھول میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔رفتہ رفتہ عوام کی یادداشت سے یہ فیصلے محو ہوجاتے ہیں، عدلیہ نئے مقدمات کے انبار میں الجھ جاتی ہے اور گزشتہ فیصلے وقت کی فائلوں کے بوجھ میں دب کر دم توڑ دیتے ہیں۔

چاہے سیاسی معاملات میں انٹیلی جینس ایجنسیوں کے کردار کو محدود کرنے کی اصغر خان کی پیٹیشن ہو ، کہ این آر او کا فیصلہ ہو، کہ لاپتہ افراد کی تلاش کا معاملہ ، کہ پٹرولیم کمپنیوں اور اوگرا کی لوٹ مار کی تحقیقاتی رپورٹ ہو ، کہ چینی کے نرخ طے کرنے کی عدالتی ضد ہو، کہ نیشنل انشورنس کارپوریشن سکینڈل کی چھان بین کے لیے ایف آئی اے میں ظفر قریشی کی دوبارہ تعیناتی ہو ، یا کیبنٹ سیکرٹری کے افسر بکارِ خاص بنانے کے فیصلے کی واپسی۔کوئی بھی اور کچھ بھی ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔

پاکستان غالباً واحد ملک ہے جہاں فیصلوں پر عمل نہ ہونے کے باوجود صدرِ مملکت سے لے کر صوبائی وزیر تک یہ کہنے کی مہربانی ضرور کرتے ہیں کہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔اگر بات کی جائے بین الاقوامی فیصلوں کی تو سب سے پہلے امریکی عدالت کے فیصلے پر غور کرتے ہیں۔کہ امریکہ میں سن دو ہزار میں عدلیہ نے فیصلہ کردیا کہ ایل گور ہار گیا ہے اور بش صدارتی انتخاب جیت گیا ہے۔اس فیصلے پر انتہائی مایوسی کے باوجود کسی مائی کے لال کی جرات نہیں ہوئی کہ عمل درآمد نا کرتا۔

دہلی ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ دارلحکومت میں چلنے والی تمام بسیں ایک سال کے اندر اندر ڈیزل سے سی این جی پر منتقل کردی جائیں تاکہ اہل دلی تازہ ہوا میں سانس لے سکیں۔مقامی حکام نے ڈرتے ڈرتے درخواست کی کہ اگر عدلیہ اپنی ڈیڈ لائن میں زرا سا اضافہ کردے تو بہت نوازش ہوگی۔عدلیہ نے مشروط طور پر ایسا ہی کیا اور پندرہ ماہ میں دلی کا ٹریفک دھواں پچاس فیصد کم ہوگیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی آرڈیننس نافذ سے پہلے گورنمنٹ یہ چیک کرئے کہ تین لاکھ کے قریب پرائیویٹ سکولوں ریکارڈ کسی پاس ہے۔اس کا ذمہ دار کون ہے۔اس کیلئے حکومت کو اہم اقدمات کرنا ہوں گے ۔اورتعلیمی نظام کو بچانا ہوگا۔ورنہ حکومت کو تعلیمی ایمرجنسی آرڈیننس کے نافذ میں مایوسی کے سواکچھ حاصل نہیں ہو گا۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201295 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.