آج کل ہمارے یہاں پاکستان ،
ہندوستان ، بنگلہ دیش اور فغانستان میں دینی مدارس میں سالانہ چھٹیاں ہونے
کو ہیں ،ان مدارس کا تعلیمی سال نصف شوال سے شروع ہوکر اواخر رجب تک رہتاہے
، مرکزالعلوم الاسلامیہ جامع مسجد البدرایک مکمل دینی ، اسلامی اور عربی
یونیورسٹی ہے ، مفتی امداداﷲ صاحب نے درس نظامی کے ساتھ ساتھ دراسات دینیہ
کاعالم کورس عربی میں بھی جاری کیاہواہے، دار الافتاء ،تخصص فی الادب
العربی اورتخصص فی القراء ات کابھی معقول انتظام ہے ،گذشتہ اتوار یہاں کے
سالانہ پروگرام میں راقم الحروف مہمان ِخصوصی اورسرپرست کی حیثیت سے شریک
تھا، مفتی عبد الرؤف ہالیجوی نے صحیح بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس
دیناتھا اور پھر دستاربندی کاعمل تھا، اس کے بعد مجھے جامعہ جویریہ ناظم
آباد میں شیخ الحدیث مولانامعاذدھلوی کے یہاں جاناتھا، جہاں صحیح البخاری
کی آخری حدیث کادرس بھی میں نے ہی دیناتھا،جامعہ جویریہ بھی مولانامعاذکی
صلاحیتوں اور کاوشوں کامنہ بولتاثبوت ہے،مارننگ اور ایوننگ کے اعتبار سے یہ
گویا دومستقل ادارے ہیں ، اس کے علاوہ عوام کیلئے عربی ، انگریزی اور ترجمہ
قرآن کریم کا پروجیکٹرپر نہایت عمدہ انتظام ہے ۔
اتفاق سے ان دونوں بڑے اداروں کی تعلیمی نگرانی ہمارے حوالے ہے ،دونوں میں
دیگر دینی مدارس کے اعتبار سے ،تعلیمی ، اصلاحی ،نصابی ،انتظامی اور دعوتی
لحاظ سے نمایاں فرق نظرآتاہے ،دونوں اداروں کاعربی زبان وادب کے نشر واشاعت
کیلئے کردار سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے ،چنانچہ یہاں کچھ بچوں نے عالم
اسلام کی موجودہ صورت حال پر عربی میں ایسی عمدہ اورولولہ انگیز تقریریں
کیں ،کہ حاضرین انگشت بدنداں رہ گئے ،ہم نے اپنی طرف سے ذاتی طورپران طلبہ
کی حوصلہ افزائی کیلئے فی کس 500روپیہ انعا م کا بھی اعلان کیا، حقیقت یہ
ہے کہ ان طالبان علوم نبوت کی عربی تقریروں کی گونج تاحال میرے کانوں میں
ہے، اﷲ تعالی مزید ترقیاں نصیب فرمائیں ۔جامعہ جویریہ میں متا ثرکن بات یہ
تھی کہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کوعربی، کمپیوٹر،نیٹ اور سرچنگ کے امور میں اتنی
مہارت سے تعلیم دی گئی تھی ، کہ ان کے سامنے اچھے خاصے کہنہ مشق لوگ ہیچ
نظرآئے،اﷲم زدفزد۔
ان دونوں جگہ پرہماری گفتگوکاخلاصہ یہ تھا، کہ امام بخاری کی کتاب کے اس
اختتامی تقریب سے آپ تمام فضلاء یہ بات ذہن نشین کرلیں ،کہ امام کویہ مرتبہ
روایت شکنی سے ملا، ’’کچھ نیا‘‘ کرنے سے ملا، اگروہ لکیرکافقیر بن جاتے اور
اندھی تقلید کے پیچھے لگ جاتے ،تو شاید یہ مقام حاصل نہ کرسکتے ، تقلیداور
عدم تقلید والی مشہور بحث یہاں ہماری مراد نہیں ہے ،بلکہ علی الٹپ پیچھے
چلنے پراعتراض ہے ، ایجادات وتخلیقات پر نگاہ مرکوز رکھیں، اصول اورمبادی
کوچھیڑے بغیرحکمت عملیوں میں روایت شکنی کو اپنا شعار بنائیں ، اس میں دعوت
وتبلیغ،درس وتدریس ،وعظ وخطاب ،تصنیف وتالیف ، احسان وسلوک،قیادت وسیاست
اور قتال وجہاد کے ساتھ تحقیق وتدقیق کے میدانوں میں بھی نئی راہیں تلاش
کرنا ہمارے آج کے فضلاء کا فرض عین ہے ،مین سٹریم میں رہئے ،گوشہ نشینی کا
زمانہ نہیں ،امامت عالم کا دور اور کردار اداکرنے کیلئے ہرایک فاضل اپنے آپ
کواہل بنائے ، اورعلی وجہ البصیرت میدان میں اتریں ، امت کیاپوری انسانیت
اسلامی تعلیمات کی پیاسی ہے ، ان کا پیاس بجھانے کیلئے پیشکش کے نئے طریقے
اور پیکجز تلاش کریں ، آفاقی بنئے ،کنویں کی مینڈک بننے والے اس زمانے میں
امت کو تنزلی اور تخلف کی طرف لے جائینگے ، آپ تمام فضلاء وفاضلات اپنی
مخصوص حیثیت اور قدر ومنزلت کو خود پہچان کردوسروں سے اپنے آپ کومنوائیے ،
امام بخاری اگر جمع وترتیبِ احادیث میں امامت کے اعلی مقام پر فائز ہیں تو
تبلیغ ِاحادیث، سیرت رسول ﷺاوراسوۂ حسنہ کے نشرواشاعت میں پہلے اپنے کردار
اورپھر اپنے گفتاروپندار سے اسمیں اپنا لازوال حصہ ڈال کرامامت کا درجہ اور
مقام تک پہنچنے کی مساعی جاررکھیں ،ننگ ِاسلاف نہ بنیں ،فخرِ اسلاف بیئے۔
سورہ ٔرحمان میں اﷲ تعالی نے تعلیم قرآن کواپنی رحمانیت والی صفت سے
ملایاہے ، لہذا آپ صفت رحمانیت کو اپناماٹوبنائیے ، درشتی ،سختی اور کرختگی
تعلیم قرآن کے ساتھ زیبانہیں ہے ،نیز تخلیق انسانیت کے ساتھ اﷲ تعالی نے
انسان کو ’’البیان ‘‘ کی صفت سے نواز اہے ، خوش بیان وخوش گفتار بننے پر
توجہ دیں ۔ سورۂ علق میں اﷲ تعالی نے تعلیم وقراء تِ کتاب کو ’’قلم ‘‘ کی
تعلیم سے جوڑا ہے ، لہذا منبر ومحراب کے ساتھ ساتھ قلم بھی چھوٹنے نہ پائے،
قلم کی طاقت ،قوت اور غلبہ کو ہمیشہ ملحوظِ خاطررکھتے ہوئے قلم کا شہ سوار
بنئیے ،ماہرین سے اکتسابِ فیض کریں ،اور روایت پسندی وخرافات سے ہٹ
کرعبقریت اور روایت شکنی پر عمل پیرارہیئے ، یوں کامیابیاں آپ کے قدم
چومیگی ، اخیر میں ہم نے امام بخاری کی طرح مجالس کی خیر وبرکت والی دعاء
’’سبحان اﷲ وبحمدہ ،سبحان اﷲ العظیم ‘‘پر اپنی معروضات کا اختتام کیا، آپ
بھی مذکورہ دعاء باربار پڑھکراس کی برکتوں کو سمیٹئے۔ |