پنجاب میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاد

میں ٹی وی پر نیوزبلٹن دیکھ رہا تھا ۔ان تمام خبروں میں سے ایک خبرنے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کردیا کیونکہ خبر ہی کچھ اتنی اچھی تھی کہ قلم خودبخود لکھنے کے لیے بے چین ہو گیا۔ بہت سوچا کہ چھوڑ کیا لکھنا یہ خبر بھی دوسری خبرکی طرح ہے مگر کیا کرتا جب تعلیم کی بات ہوتو اس کی افادیت کے لیے میرا قلم لکھنے سے باز نہیں آتا۔خبر یہ تھی کہ پنجاب حکومت نے صوبے میں فوری طور پر تعلیمی ایمرجنسی آرڈیننس نافذ کردیا ہے۔ آرڈیننس کے تحت والدین پر بچوں کو اسکول بھیجنا لازم ہوگا۔تعلیمی ایمرجنسی آرڈیننس کے مطابق 5 سے 16 سال تک کے بچوں پر تعلیم حاصل کرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ بچوں کو سکول نہ بھیجنے والے والدین کو چھ ماہ قید یا 50 ہزار روپے جرمانہ ہوگا ۔سکول سے طالب علم کا نام خارج کیے جانے کا اختیار بھی عارضی طور پر بند کردیا گیاہے۔

بچے اﷲ کی عظیم نعمت ہیں۔بچے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا کے لیے ایک تحفہ ہیں۔ جس گھر میں بچے نہیں ہوتے وہ گھر سنسان لگتا ہے۔ ہمارے رسول اکرم ﷺ کو بھی بچوں سے بہت پیار تھا۔والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کرکے معاشرے کا بہتر فرد بنائیں۔ کسی بھی بچے کی اچھی پرورش کے لیے دینی اور دنیاوی دونوں تعلیم بہت ضروری ہیں۔ بظاہر تو پنجاب حکومت کاتعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ اچھا اقدام ہے مگر اس اقدام پر عمل پیرا ہونگے کہ نہیں اس کی ضمانت کسی کے پاس نہیں کیونکہ چائلڈلیبر کا جو حال ہورہا ہے وہ بھی آپ سب کے سامنے ہے۔

حکومت صوبوں کی ہو یا وفاق کی انہوں نے بچوں کے فلاح کے لیے ہمیشہ اقدامات اٹھائے ہیں مگرصرف کاغذی کاروائی تک کیونکہ ان پر عمل آج تک نہیں ہوا۔ حکومت کی طرف سے چائلڈ لیبر پر پابندی ہے مگر اس بات کی گواہی کون دے رہا ہے کہ اس پابندی پرسختی سے عمل کیا جارہا ہے؟ میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق اکثر فیکٹریوں میں چائلڈ لیبر قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ آپ کسی شہریا دیہات میں چلیں جائیں وہاں ہوٹل ہو یا ورکشاپ، کریانہ سٹور ہو جنرل سٹورہر جگہ آپ کو چھوٹے چھوٹے بچے کام کرتے نظر آئیں گے۔اگر حکومت بچوں کے حقوق کے لیے اور ان کو تعلیم دلانے کے لیے اتنی مخلص ہے پھر اسکوچائلڈ لیبر پر سختی سے عمل کرانا ہوگا۔ فیکٹریوں میں تو یہاں تک دیکھا گیا کہ وہ چائلڈ لیبر کے خوف سے بلیک میل ہو کر میڈیا کے لوگوں کو منتھلی تک دیتے ہیں تاکہ ان کی خبر افسران بالا تک نہیں پہنچ جائے ۔ ان فیکٹریوں میں ڈائریکٹر سے لیکرفیکٹری مالک تک آتے ہیں مگر انہوں نے بھی کبھی اپنے فیکٹری مینجمنٹ کو اس بات سے منع نہیں کیا۔

قانون نافذ کرنے والے افسران دن رات گاڑیوں میں سڑکوں کو پر گھومتے پھرتے رہتے ہیں کیا کبھی کسی نے روڑ پرکام کرتے بچوں سے پوچھا کہ وہ سکول کیوں نہیں جاتے؟سرعام یہ آفیسرز اپنی گاڑیاں ان چھوٹوں بچوں سے مرمت کراتے ہیں مگر کبھی اس ورکشاپ کے مالک سے یا بچے کے والدین سے نہیں پوچھا کہ ان کوسکول کیوں نہیں بھیجتے یا ان کوکام پر کیوں لگایاہوا ہے؟

پاک نیوزلائیو سروے کے مطابق جب والدین سے بچوں کو سکول پڑھانے کی بجائے کام پر لگانے کی وجہ دریافت کی گئی توان کا جواب ایک ہی تھا کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ ہم بچوں کو تعلیم دلواسکیں۔ بیروزگاری نے ہماری کمرتوڑی ہوئی ہے ۔

پنجاب میں تعلیمی ایمرجنسی لگائی ہے توپھر اس پر عمل کرانا ہوگا۔ خادم اعلیٰ کو ایک سیل آفس قائم کرنا ہوگا جہاں اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف آپ کو فوری اطلاع دی جاسکے کیونکہ چائلڈ لیبر کی طرح اس ایمرجنسی میں بہت سے چور راستے ہونگے۔ ویسے تو پاکستان میں تمام معاشرے کے لوگ بچوں کی تعلیم کے حق میں ہیں مگر یہ تعلیم بھی صرف امرا کے لیے ہے غریبوں کے لیے نہیں۔ حکومت نے پچھلے دنوں دانش سکول قائم کیے تو وہ بھی بڑے بڑے شہروں میں جہاں غریب کی پہنچ ہی نہیں۔

حکومت ہر با ر کسی نہ کسی پیکج کا اعلان کرتی رہتی ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتی ۔حالیہ PECامتحانات میں ہشتم کلاس سے عربی، معاشرتی علوم اور آپشنل مضامین کے پیپر ز نہیں لیے گئے پھر ان نتائج میں بے تحاشا غلطیاں کی گئیں ہیں۔ آج تک ان بچوں کے رزلٹ کارڈ ایشو نہیں ہوئے لیکن خادم اعلیٰ بتائیں کہ انہوں نے یا صوبائی وزیر تعلیم نے کوئی ابھی تک ایکشن لیا؟ ہمارے حکمران تعلیم کے ساتھ صرف کھیل رہے ہیں۔ تعلیم کو عام کرنے کا ڈرامہ کیا جارہے ۔ خواندگی کی شرح کاغذوں میں بڑھائی جارہی ہے حقیقت میں نہیں۔ اس سے پہلے ایک بھیانک کھیل UPE کے نام سے کھیلا جا رہا ہے۔ اداروں سے اساتذہ اس کھیل کے نام پر غائب ہوتے ہیں ۔ اداروں میں فرضی بچے داخل کر کے اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کا حکم ہے جس کی آڑ میں استاد Rationalizationسے بچ کے ایک ہی جگہ پر سالہا سال سے بیٹھے ہیں۔

مسئلہ نت نئی قانون سازی نہیں بلکہ پہلے سے وجود قانون پر عملدرآمد کا ہے۔ لازمی پرائمری تعلیم ایکٹ موجود ہے ۔ ضرورت تمام قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل کی ہے ورنہ ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل ملک سے باہر اور جیب کترے سالہا سال جیل میں سڑتے رہیں گے۔
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 234461 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.