گنواں دی ہم نے جواسلاف سے میراث
پائی تھی
ثریا نے زمین پر آسمان سے ہم کو دے مارا
تاریخ گواہ ہے کہ ظہوراسلام سے قبل جہاں انسان میں بہت ساری برائیاں
تھیں،ان میں سب سے نمایاں اورشرمناک بات یہ تھی کہ عورت کا معاشرے میں کوئی
مقام نہ تھا۔وہ صرف ایک زرخریدلونڈی یا خواہشات نفسانی کے پورا کرنے کا
زریعہ سمجھی جاتی تھیں،معاشرے میں اس کا کوئی مقام نہ تھا اس کو سرے عام
بازارمیں نیلام کیا جاتا تھا،یہاں تک کہ لڑکی کی پیدائش کومعیوب سمجھا جاتا
تھا،اور اسے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔مختلف قبائل میں مختلف
رواج تھے،بعض قبیلوں میں کسی بھی عورت کے شوہر کے مرنے کے بعد اس کا سب سے
بڑا حقیقی بیٹا ہی اپنی ماں سے نکاح کا حق رکھتا تھا،بعض قبیلوں میں ایک ہی
عورت مشترکہ طورپر کئی مردوں کی بیوی ہوتی تھی،بعض قبیلوں میں شوہرکے مرنے
کے بعد اسی مردکی چتا میں اس کی بیوی کو زندہ جلایا جاتا تھا،جسے ستی کہتے
ہیں،اگرکوئی عورت بیوہ ہوگئی تواسے چارماہ تک ایک بندکوٹھری میں رکھا جاتا
تھا،اس عورت کی صورت دیکھنا منحوس سمجھا جاتا تھا،اورپھرعدت کے دن پورے
ہونے کے بعداسے اونٹ کی مینگنیاں لگا کرسارے شہرکا چکرلگوایا جاتا تھا،اس
طرح عورت کو ہرطرح ذلیل وخوار کیا جاتا تھا،لیکن جب پیغمبرآخرالزماں دنیا
میں رونق افروزہوئے اورآپ ﷺکو چالیس سال کی عمرمیں نبوت عطا ہوئی توآپ ﷺنے
سب سے پہلے عورت کی اصلاح کی جانب خاص توجہ مبذول فرمائی اورعورت کو دنیا
کے سامنے ایک مثالی نمونہ بناکر پیش کرکے معاشرے میں اعلیٰ مقام عطا کیا ،عورتوں
کو امہات المومنین ،صحابیات جیسے خطابات سے نوازا،خصوصا عورت کو ماں کا
درجہ دے کر فرمایا کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ،اﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام
پاک میں مردوں کیساتھ ساتھ عورتوں کا بھی واضح طورپر ذکرفرمایا ،اورمردوں
کے برابرعورتوں کے مساوی حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا،اور فرمایا کہ
تمہاری اولادمیں ایک لڑکے کا حصہ دولڑکیوں کے برابرہے،جب کہ ظہوراسلام سے
قبل عورت کا وراثت میں کوئی حصہ نہ تھا،آج بھی دیگر مذاہب میں عورت کا
وراثت میں حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم آئے دن اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں
عورت جہیزکی بھینٹ چڑھا کرنذرآتش کردی گئی،اسی طرح اسلام سے پہلے شادی
وطلاق کا کوئی ضابطہ نہ تھا،اس لئے معاشرے میں انتشار اور بگاڑ پیدا ہوگیا
تھا،اس لئے اسلام میں ایک مرد کو صرف چارشادیوں کی اجازت دی،قرآن پاک میں
واضح طورپر فرمایا گیا ہے کہ اگر سب کے ساتھ مساوات نہ کرسکوتوایک سے زیادہ
شادی مت کرو۔(النساء)،اسی طرح اسلام میں شوہرکے مرنے کے بعدبیواؤں کودوسرا
نکاح کرنے کی اجازت دی گئی،شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی کی مرضی کو الزمی
قراردیا گیا،عورت کو اپنی مرضی سے مردسے خلع لینے کی اجازت دی گئی،اسلام
میں ہر مردپر اس کی عورت کا مہرواجب کردیا گیا،اگرچہ اسلام میں عورت کو
پردے کا حکم دیا گیا ہے،لیکن وہیں بوقت ضرورت عورت کو پردے کے ساتھ گھر سے
نکلنے کی اجازت بھی دی گئی،جہاں پر عورت پر مرد کے حقوق ہیں،اسی طرح مردپر
بھی عورت کے حقوق ہیں،جیسے مرد جوکھائے ،عورت کوبھی ویسا ہی کھلائے ،مرد جو
پہنے ویسے ہی عورت کوبھی پہنائے ،عورت کیساتھ حسن سلوک سے پیش آئے،عورت کی
تمام ذمہ داری مردپر ڈالی گئی،جس طرح مردگھرکا حاکم ہے،اسی طرح عورت بھی
اپنے گھرکی ملکہ ہے،گھرمیں جوعزت مردکو حاصل ہے وہی حیثیت عورت کو بھی حاصل
ہے،تعلیم کے سلسلے میں حدیث مبارکہ ہے کہ دینی تعلیم حاصل کرنا ہرمردوعورت
پرفرض ہے،یعنی مرداورعورت (دونوں)کویکساں فرض قراردیا گیا،اسی طرح نیک سیرت
عورت جس کا شوہراس سے راضی ہو،اوراس نے اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ
کیا اورگھرکوجنت کا نمونہ بنایا اس عورت کے لئے جنت کی بشارت دی گئی،غرض یہ
کہ عزت وشرف صرف اسلام ہی میں عورت کو حاصل ہے،اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے ،جس
نے عورت کو پستی سے نکال کر بلندی پر پہنچایا ۔مگرافسوس صدافسوس عورت آج
اپنے اسلام کو بھلا کرمغربی تہذیب کو اپنا کربلندی سے پستی کی جانب رواں
دواں ہے۔ |