میر خلیل الرحمن کی روح اپنے
لگائے ہوئے پودے سے تناور درخت بن جانے کے بعد اسکی موجودہ صورتحال پر جس
قدر بے چین ان دنوں ہوگی شاید ماضی میں کبھی نہ رہی ہو۔جنگ و جیو گروپ کے
کارکنان جس ذہنی کرب سے ان دنوں گذر رہے ہیں شاید ماضی میں کبھی نہیں گذرے
ہونگے۔بدنام زمانہ وینہ ملک اور گمنام زمانہ اسد خٹک ( جو ان دنوں شہرت کی
بلندیوں کو چھو رہے ہیں)بھی اتنے پشیمان اپنے ماضی میں کئے حرکات پر نہیں
رہے ہونگے جس قدر وہ بھی ان دنوں ہونگے۔اپنے آپ کو مسیحا کہنے والی شائستہ
واحدی بھی اپنی رنگین زندگی میں اس قدر افسردہ ماضی میں کبھی نہیں رہی
ہونگی جس قدر وہ اپنے توہین آمیز حرکت کے بعد ان دنوں ہونگی۔
اگر اس صورتحال پر مزید غور کیا جائیگااور بات میر شکیل الرحمن جن کے متعلق
بقول قائد تحریک انصاف عمران خان کے کہ میر شکیل اپنی فرعونیت میں خود کو
بھلا بیٹھا ہے وہ جس طرح کی صورتحال اور مکافات عمل سے ان دنوں دوچار ہے
ماضی میں کبھی بھی نہ رہاہواہوگا اور نہ ہی اس نے کبھی یہ سوچاہوگاکہ
پاکستانی معاشرے میں اسکے طاقتور میڈیا روپ کے سامنے اسکی راج دھانی میں
کوئی علم بغاوت بلند کریگا۔
کیسا وقت تھا مذکورہ تمام شخصیات کیلئے اور یہ چند دنوں میں کیا ہوگیا ۔بقول
شاعر میرے دوست قصہ یہ کیا ہوگیا، وقت کیسا گذر رہا تھا اور اب یہ کیا
ہوگیا۔۔۔
کیونکر نہ ہوگا یہ سب کچھ، آخر کیوں نہیں ہوگا، جیو تو ایسے ، اور پھر جیو
تو ایسے، کسی کا تمسخر اڑا کر جیو تو ایسے، کسی کا حق مار کر جیو تو ایسے،
کسی کو نیچا دکھا کر جیو تو ایسے، کسی کو بلندی پر پہنچاکر جیو تو ایسے،
کسی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوکر جیو تو ایسے، کسی کی عزت پامال کر کے ، کسی
کو سربازار رسواکر کے جیو تو ایسے، ہا ں آخر کب تک جیو تو ایسے اور جیو
ایسے، کب تلک پاکستانی عوام کو بیوقوف بناکر جیو تو ایسے، انکی زندگیوں سے
کھیل کر جیو تو ایسے، اور پھر یوں بھی کہ اپنے چمن کی کلیوں کو دشمننان ملک
کے کہنے پر صفحہ ہستی سے مٹاکر ، ان کے پیاروں کے ہمراہ آنس بہا کر اس وقت
بھی جیو تو ایسے،جانتے بوجتے بھی نامعلوم کی رٹ لگاکر جیو تو ایسے، کہیں آگ
اور کہیں لاوا برسا کر جیو تو ایسے، آخر کب تک جیو والو،تم لوگ کیونکر یہ
بھول گئے ہو کہ ایک ذات عظیم اوپر بھی ہے جو تمہاری ڈوریں کب سے ڈھیلی کئے
جارہاتھا اس امید پر تمہیں مواقع دیئے جارہا تھا کہ تم سدھر جاؤ ، لوٹ
آؤاسکی جانب، اسکی راہ کی طرف۔ مگر یہ تم ہو کہ کبھی دبے لفظوں میں اور
کبھی ببانگ دہل یہاں کی ریت کو ،یہاں کے رسم و رواج کو یہاں کے سادہ لوح
عوام کو ، یہاں کے نظام کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہوکسی کی خواہش
پر کسی کے کہنے پر،جیو والو تم لوگ تو نا وہ پشتو کی اک مثال ،م زار ما ٹول
ائے ما کے مصداق سب کچھ اپنا اور صرف اپنا سمجھتے ہو سب فائدے خود سمیٹنا
چاہتے ہو، اور اس کام میں ان تمام لوگوں کو شامل کرنا چاہتے ہو جو تمہاری
طرح کی سوچیں رکھتے ہوں۔لیکن آخر کب تک، اب جبکہ سبھی کو پتہ چل چکا ہے کہ
تمہارے اصل چہرے کا روپ باوجود اسکے کہ تم اپنے مفادات کو عوامی مفادات کا
روپ دینا چاہتے تھے اور اس روش میں تم حد سے گذر گئے ۔لہذا اب تمہاری ،
تمہارے آقاؤں کی ، اور جو جو بھی تمہارے ان مذموم مقاصد میں شامل ہے ان سب
کی رسی کا ڈھیلا پن اب حتم ہونا شروع ہو چکا ہے۔اور یہ یاد رکھنا کہ تمہاری
تہذیب خود اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کریگی ،جو تم بو چکے اب وہ وقت آنے
والے ہے کہ جب اسے تمہیں خود کاٹنا ہوگا۔تمہارے گرد حصار اب تنگ ہورہا
ہے۔یہ یاد رہے کہ کوئی بھی عمل یکدم نہیں ہوا کرتا جس طرح ہر عمل کا ردعمل
ہوتا ہے اسی طرح تمہارے اعمالوں کا یہ ہلکا سا ردعمل اب شروع ہوچکا ہے۔گنتی
الٹی شروع ہوچکی ہے اور وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ جب ہندسہ صفر پر
آجائیگااور پھر اس کے بعد ، اس کے بعد کیا ہوگا وہ وقت بتائیگا اور جو وقت
بتائیگا وہ تاریخ میں امر ہوجائیگا۔
اب ھی وقت ہے اور موقع بھی، پاکستان کی عوام جذباتی سہی، کچھ معاملات میں
بے حس سہی،مہنگائی ، لوڈشیڈنگ، غربت و افلاس ی ستائی ہوئی سہی لیکن جب بھی
معاملہ دین کا ہوتا ہے وطن عزیز کا ہوتاہے تو پھر یہ سروں پر کفن باندہ کر
اور اپنے پیٹوں پر پتھر باندہ کر میدان عمل میں آجاتے ہیں، پھر یہ اس وقت
پلٹتے ہیں جب فتح انکا مقدر بن جاتی ہے لہذا فیصلہ جیو تمہیں کرنا ہے جیو
تو ایسے یا پھر جیو تو ویسے۔۔۔۔ |