وہ سکول کے سب سے سینئر سائنس
ٹیچر تھے ۔ میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو بہت پریشا ن تھے میں نے وجہ
دریافت کی تو ایک ٹھنڈی آہ لے کر بولے کہ مغل صاحب اب یہی دن دیکھنا باقی
رہ گئے تھے کہ استاد گھر گھر جا کر بچوں کو نکال کر لائے ۔ان کے والدین کی
منت سماجت کرے ان کے پیر پکڑے ان کے سامنے ہاتھ جوڑے کہ اپنے بچوں کو
گورنمنٹ سکول داخل کروائیں ۔استاد کو ذلیل و رسواکردیا گیاہے۔ حلقہ بندی
استاد کرائے ،ووٹر ز لسٹوں کی تیاری استاد کی ذمہ داری ،خانہ شماری استاد
کے سر، مردم شماری میں استادلازم ومشروط ،الیکشن ڈیوٹی استاد دیں،سیاسی
جلسے جلوسوں میں تعداد کو بڑھانا استاد پر لاگواور اس طرح کی پہلے ہی بہت
سی ذمہ داریاں استاد پر مسلط کردی گئیں ۔اب سر کاری سکولز میں UPEاور USEکے
تحت ہر ہر بچہ سکول لانے کا جوسلوگن حکومت پنجاب نے اپنایا ہے اور تعلیمی
ایمرجنسی نافذ کی ہے نام خارج کرنے کی صورت میں سکول کے سربراہ کو پچاس
ہزارروپے جرمانہ یا چھ ماہ کی قید تو اس نے توسب کاموں کو پیچھے چھوڑ دیاہے
۔استاد سکول آنے سے پہلے اور سکول سے جانے کے بعد محلہ داروں ہمسایوں اور
قرب وجوار کے لوگوں کے گھروں میں جائیں اور انہیں اس بات پر قائل کریں کہ
وہ اپنے چھوٹے بڑے بچوں کوسرکاری سکول بھیجیں ۔مزید ستم یہ ہے کہ ہر سکول
کو ایک ٹارگٹ دیا گیا ہے جس کے تحت دونوں لیول میں بچے جسمانی طور پرموجود
(Physically present) دکھانے ہوتے ہیں جوکہ نا ممکن اور نامعقول سی بات ہے۔
میں نے کہا کہ وہ کیوں؟ انہوں نے فرمایا کہ اب ہر گلی اور محلے میں دوتین
نہیں تو کم از کم ایک سکول موجود ہے اور جب سے PEFسسٹم آیا ہے پرائیویٹ
سکولز نے فیس لینا بھی چھوڑ دیا ہے سرکاری سکولوں کا فری والا چارم بھی ختم
ہوگیا۔اب ایک بچہ یا بچی جو کلو میٹر دو کلو میٹر سے یا دوتین گلی چھوڑ کر
سکول آتے تھے انہیں ان کے گھر کے دروازے(Door Step)پرسکول بھی مل گیا ہے وہ
بھی پرائیویٹ سکول جن کے بارے میں پہلے سے ایک مائنڈ سیٹ ہے کہ سرکاری
سکولوں کی نسبت پرائیویٹ سکولوں میں پڑھائی زیادہ اچھی ہے تو کون بے وقوف
یا کم عقل ہے جو ان تمام سہولیات کو availنہ کرے۔نہ بچوں کو سکول چھوڑنے کی
ٹینشن نہ واپس لانے کی فکر بالفرض محال ہم منت ترلے کرکے بچوں کو سکول میں
داخل کروالیتے ہیں تو پھر ان کی حاضری کو یقینی بنانا بھی نہایت دشوار او ر
کٹھن ہے اب سکول پہنچنے کے بعد بچوں کو پڑھانے سے زیادہ ان کی تعداد پوری
کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے موبائل فون پر سب کے والدین کو فون کرکے درخواست
کرتے ہیں کہ براہ مہربانی بچوں کو سکول بھیجیں (انہوں نے لسٹ بھی دکھائی) ۔
یہ اور اس قسم کے ملتے جلتے معاملات اور احساسات پورے پنجاب کے ٹیچرزاور
سکولوں میں پائے جاتے ہیں وزیراعلی کی ہدایات پر خصوصی ٹیمیں تشکیل دے کر
مختلف اضلاع میں Deputeکردی گئیں ہیں۔جن کا کام ہر بچے کو سکول میں لانا ہے
۔ 5 سے 16 سال تک کے ہر بچے کو سکول لانے کے حوالے سے تعلیمی ایمرجنسی کا
نفاد،وزیر اعلی کا یہ اقدام قابل تحسین ہیں او ر یقینا ان کی علم دوستی کا
ثبوت بھی ہے لیکن اس میں جہاں بہت سے فائدے اورعلم کی ترقی دامن گیر ہے
وہیں پر بہت سی قباحتیں بھی جنم لے رہی ہیں ۔استاد کا بنیادی مقصد سکول آنے
والے طلباو طالبات کی تعلیم وتربیت ہے استاد اس بات کا پابند ہے کہ وہ ہر
بچے کو اس کی ذہنی استعداد کار اور قابلیت کے مطابق زیور تعلیم سے آراستہ
کرکے اس کو معاشرے کیلئے کارآمد بنائے۔ معمار قوم بنا کر ملکی ترقی میں
اپنا کردار ادا کرنے کا اہل بنائے ۔لیکن یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ استاد
پہلے تو گھروں میں جا کر بچوں کوسکول لے کرآئے والدین کی منت سماجت کرے بعض
اوقات اسی بات کو لے کر والدین بلیک میل کرتے بھی ہیں تذلیل بھی کرتے ہیں۔
استاد غیر حاضر ہونے پر نہ تو مار پیٹ کرسکتا ہے اور طالب علم کو ڈرانے
دھمکانے کیلئے نہ ہی نام خارج کرسکتا ہے تو بتائے کہ کس طرح سے آپ بچوں کو
باؤنڈ کرسکتے ہیں۔یہ بات بھی بجا ہے کہ پرائیویٹ سکیٹر اور جگہ جگہ سکولوں
کے قیام کی وجہ سے والدین اور بچوں کو بہت سی مشکلات سے چھٹکارا مل جاتا ہے
پھر فیس کی بھی ٹینشن نہیں گھر سے نکلتے ہی سکول مل جاتا ہے تو پھر کون
سرکاری سکولوں میں بچوں کو داخل کرائے پرائیویٹ سیکٹر میں نصابی سرگرمیوں
کے ساتھ ساتھ ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی بھی فروغ دیا جاتا ہے
کبھی کلرڈے تو کبھی ڈرائنگ ڈے۔کبھی سپورٹس ڈے تو کبھی تقاریر کے مقابلے
اورپیرنٹس ٹیچرمیٹنگز بھی ان سرگرمیوں کا حصہ ہوتی ہیں والدین اپنے بچوں کے
بارے میں فکر مند (concious)بھی ہوتے ہیں رپورٹ بھی وصول کرتے ہیں ۔سرکاری
سیکٹر میں یہ سب چیزیں ناپید ہوتی ہیں۔ لے دے کے ایک سالانہ سپورٹس بحکم
افسران منعقد کروادیا جاتا ہے جس میں صرف بڑے بچے ہی حصہ لیتے ہیں لب لباب
یہ ہے کہ سرکاری سکولوں میں بچوں کیلئے کوئی چارم نہیں ۔اگر حکومت واقعی اس
معاملے میں مخلص ہے تو پھر یہ تمام ایکٹی ویٹیز) (activitiesکرنا ہوں گی
والدین کوراغب کرنے کیلئے ان سے میٹنگز کرنا ہوں گی ان کی آگاہی کیلئے
سیمینار منعقد کرنا ہوں گے ۔سب سے بڑھ کر والدین کی معاشی حالت کو بہتر
بنانے کیلئے اقدامات ترجیحی بنیادوں پر کرنا ہوں گے ۔ بچے سکول بھیجنے پر
غریب والدین کیلئے کوئی مالی اعانت یا وظیفہ مقر ر کردیاجائے ۔خوشحال
والدین کے ذریعے پڑھا لکھا پاکستان بنانا نا ممکنات میں سے نہیں ہے اسی طرح
اساتذہ کو صرف اور صرف تعلیم وتربیت تک ہی محدود رکھا جائے اوراگر تعلیم و
تدریس کے معاملے میں استاد کوتاہی کا مرتکب ہو تو پھر کوئی رورعایت نہ برتی
جائے۔ |