طلبہ اور اساتذہ کے رویوں میں تبدیلی کیوں؟؟؟

استاد اور شاگرد کے مابین باپ بیٹے کا رشتہ ہوتا ہے کیونکہ حقیقی باپ صرف ایک انسان کو جنم دینے کا سبب بنتا ہےلیکن ایک استاد اس انسان کو حقیقی انسان بناتا ہے اسے انسان ہونے کا احساس اور اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہے، اسے شعور دیتا ہے، اسے اس کے اس دنیا میں آنے کا مقصد بتاتا ہے، زندگی گزارنے کے ڈھنگ سکھاتا ہے، اسکی زندگی سنوارتا ہے، اس کے اور دوسری مخلوقات کے درمیان کا فرق سمجھاتا ہے یہی وجہ ہے کہ استادکو باپ کا درجہ دیا جاتا ہے اور اسے معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ ایک اچھا استاد ماہرِنفسیات بھی ہوتا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا کیونکہ شاگرد کے ساتھ ایک استاد کا خیالات کا رشتہ بھی ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے شاگرد تک زمانے کے نشیب و فراز،نیکی و بدی اور زمانے کے اندھیرے اجالوں کے بارے میں اپنے اخلاق اور اپنے علم کے ذریعے فرق بتلاتا ہے،ایک وقت تھا جب شاگرد استاد کو اپنے روحانی باپ کا درجہ دیا کرتا تھا اسے اتنی ہی عزت دیا کرتا تھا جتنی کہ ایک بیٹا اپنے باپ کو دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے زمانوں میں طالبعلم ترقی وکامرانی کے وہ جھنڈے گاڑھتا تھا جسے دنیا آج تک یاد رکھتی ہے اس کے پسِ منظرمیں ایسی کیا وجہ تھی جو اب ہمیں نظر نہیں آتی کیا پہلے کے اساتذہ کا اندازِتدریس آج کے اساتذہ سے زیادہ بہتر تھا؟ یا پھر آج تعلیم کا قحط ہے؟ یا پہلے کے طلبہ وسیع ذہن کے مالک تھے جو کہ آج نہیں ہیں؟ آج کل نئے تیکنیکی طریقوں سے تعلیم کو آراستہ کرایا جا رہاہے مگر پھر بھی طالب علم علم کی روشنی سے کیوں دور جا رہا ہے؟ کیا آج کے تعلیمی وسائل پچھلے زمانوں کے قلیل تعلیمی وسائل کے مقابلے میں اپنی وہ اہمیت برقرار نہیں رکھ سکے یا پھر آج کا طالب علم ایک روشن ذہن کےساتھ جنم ہی نہیں لے رہا؟ آخر وجہ کیا ہے؟

وقت گزرتا گیا اور یہ مثالیں کم ہوتے ہوتے بالکل ہی ختم ہو کر رہ گئی ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی بھی پسپائی کا شکار ہے۔ یہ بجا ہے کہ استاد قوم کا معمار ہوتا ہے جس کے ہاتھوں ملک وملت کے نونہال پروان چڑھتے ہیں اور قوموں کی زندگی میں انقلاب برپا پوتے ہیں لیکن پرانے ادوار کے مقابلے میں آج استاد اور شاگرد کے مابین قربت کے بجائے دوریاں ہی دوریاں پیدا ہوتی جارہی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ اساتذہ کی جانب سے طلبہ کی تربیت کا نہ ہونا ہے پچھلے ادوار میں استاد طالبعلم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی تربیت پر بھی خاص توجہ دیتے تھے تاکہ جب وہ اپنی تعلیم مکمل کرے تو ایک اچھا انسان اور مذہب شہری بن کر نکلے اس کے عمل و کردار سے صاف عیاں ہوکہ وہ ایک پڑھا لکھا اور مذہب انسان ہے مگر آج جیسے جیسے تعلیمی میدان میں آسانیاں پیدا ہورہی ہیں ساتھ ہی ساتھ بہت سی مشکلات بھی جنم لے رہی ہیں جس کے سبب اساتذہ اور طلبہ کے رویوں میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ استاد اور طالبعلم کے رویوں میں تبدیلی کی ایک اور بڑی وجہ والدین کی وہ اکثریت بھی ہے جو اپنے بچوں کو استاد کے مقابلے میں حد سے زیادہ اہمیت دے کر بچوں کی نظروں میں استاد کی اہمیت اور مرتبے کو کم کر دیتے ہیں۔ پرانے وقتوں کی ایک کہاوت ہے جو کہ اس دور کے والدین اساتذہ سے کہا کرتے تھے “کھال آپ کی ہڈی ہماری” مگر آج اگر کوئی استاد کسی غلطی پر شاگرد کو ایک تھپڑ بھی مار دے تو والدین بچے کی حمایت میں اسکول پہنچ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بچے کی نظر میں استاد کی اہمیت، عزت اور ڈر ختم ہو جاتا ہے جو کہ آج کے طلبہ کے کردار اور تربیت کی پستی کا سبب بنتا جا رہاہے۔

اساتذہ اور طلبہ کے درمیان رویوں میں تبدیلی کی ایک اور اہم وجہ ہمارا دوہرا اور طبقاتی نظامِ تعلیم بھی ہے۔ ہمارے ملک میں یکساں نصاب اور اس نصاب کا ہماری مادری زبان میں نہ ہونا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے جو کہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہے،ہمارے دوست ملک چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے ہمارے بعد آزادی حاصل کی مگر پھر بھی وہ آج ایک ترقی یافتہ ملک ہے، چین کی اس ترقی کا راز بھی ان کے نظامِ تعلیم سے جڑا ہوا ہے۔چین میں بنیادی کلاسز سے لیکر ہائیر ایجوکیشن تک کا تمام نصاب ان کی اپنی چائنیز زبان میں ہے جو کہ ان کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارے اس نظامِ تعلیم اور غیریکساں نصاب نے طلبہ اور اساتذہ کو مختلف طبقات میں بانٹ دیا ہے۔ کہیں اردو میڈیم اسکول ہیں تو کہیں انگلش میڈیم تو کہیں سندھی میڈیم اسکول تو کہیں گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسکول کا فرق۔ غرض یہ کہ ہمارے اس نظامِ تعلیم نے ہمیں مختلف طبقات میں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ ایک طالبعلم جو کہ سندھی یا اردومیڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے وہ اپنی زندگی کے 10 سال اپنی اسی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتا ہے مگر جیسے ہی وہ طالبعلم کالج لیول پر پہنچتا ہے تو اسے وہاں سارا نصاب انگریزی زبان میں تھما دیا جاتا ہے جس کے باعث بہت سے طلبہ نصاب سمجھ نہ آنے کے سبب پڑھائی سے جی چرانے لگتے ہیں اور ان میں سے کچھ طلبہ صرف انگریزی زبان سمجھنے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنا شروع کر دیتے ہیں اور جب تک انہیں انگریزی زبان کے بارے میں تھوڑی بہت سمجھ آتی ہے تب تک وہ اپنی تعلیمی زندگی کے 2 اہم سال ضائع کر چکے ہوتے ہیں جو کہ ہر طالبعلم کو آگے بڑھنے کیلئے بنیاد فراہم کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یونیورسٹی لیول پر پہنچنے کے بعد طالبعلم نہ استاد کو سمجھ پاتا اور نہ ہی استاد طالبعلم کو سمجھ پاتا ہے جس کے باعث طالبعلم اپنی توانائیاں بیکار کاموں میں صرف کرنا شروع کر دیاتا ہے توکوئی کسی پولیٹکل پارٹی کا حصہ بن کر اپنا کیریئر تباہ کر بیٹھتا ہے۔ اگر ہم ہمارے کالجز اور یونیورسٹیز کی کلاسز کے ماحول کا جائزہ لیں تو اکثر و بیشتر ہم دیکھتے ہیں کہ استاد کلاس میں لیکچر دے رہا ہوتا ہے مگر طلبہ بغیر اجازت کلاس میں آ جا رہے ہوتے ہیں یا پھر کلاس میں مختلف سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج اساتذہ اور طلبہ کے رویوں میں بہت فرق آچکا ہے جس نے طالبعلم کے دل سے استاد کی عزت نکال دی ہے۔ اور جب یہی طلبہ اپنا تعلیمی کیریئر پورا کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو وہ معاشرے میں بھی وہی رویہ اپناتے ہیں جو کہ وہ اپنے تعلیمی کیریئر میں اپناتے آرہے ہیں یہی اسباب ہمارے معاشرے کے بگاڑ کا بھی سبب بنتے جا رہے ہیں۔

ہمیں اپنے معاشرے کو اس بگاڑ سے بچانے اور ترقی کیلئے اساتذہ اور طلبہ کے مابین حائل اس خلیج کو ختم کرنا ہوگا اور اس مقصد کیلئے والدین، اساتذہ اورطلبہ کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، اساتذہ اور طلبہ کو ایک دوسرے کو سمجھنا ہوگا، حکومت کو اس غیر یکساں اور طبقاتی تعلیمی نظام کو بدلنا ہوگا جس سے ہم اساتذہ اور طلبہ کے مابین تیزی سے بدلتے ان منفی رویوں کو روک سکتے ہیں۔

Mani Arain
About the Author: Mani Arain Read More Articles by Mani Arain: 2 Articles with 1985 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.