گذشتہ روز وزیر ِ اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر ِ
صدارت وزیر ِ اعلیٰ ہاؤس میں سندھ کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا ۔ کابینہ
اجلاس میں تمام صوبائی وزراء ، چیف سیکریٹری سندھاور سیکریٹری داخلہ سمیت
اہم شخصیات نے شرکت کی ۔ اس خصوصی اجلاس میں کابینہ نے سندھ پولیس کو جدید
آلات سے آراستہ کرنے اور ٹارگٹ آپریشن کو کام یاب بنانے کے لیے وفاق سے 27
ارب روپے کے مالی پیکج کی فراہمی کی سفارش کی ۔ کابینہ نے دہشت گردی سے
نمٹنے کے لیے علیحدہ سے "محکمہ انسداد ِ دہشت گردی" (کاؤنٹر ٹیرر ازم کا
محکمہ) قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ریپڈ رسپانس فورس کو
جدید تربیت دینے اور پولیس کے محکمے سے کالی بھیڑوں کے صفائے جیسے اہم
فیصلے بھی کیے گئے ۔ اجلاس میں 26 پولیس اسٹیشنوں اور کراچی ، حیدر آباد
اور لاڑکانہ کی سینٹرل جیلوں کو حساس قرار دیا گیا ۔ کابینہ نے حساس قرار
دی گئی سینٹرل جیلوں پرا ضافی فورس کی تعیناتی سمیت تمام تر حفاظتی اقدامات
کرنے کا فیصلہ بھی کیا ۔
چیف سیکریٹری سندھ نے اجلاس کو بتایا کہ انسداد ِ ہشت گردی کورٹس کی ملیر
کینٹ منتقلی کا کام جاری ہے ۔سنگین جرائم میں ملوث ملک سے بھاگے ہوئے
مجرموں کی گرفتار ی کے لیے ریڈ وارنٹس کے اجر ا کے لیے وفاقی حکومت سے رجوع
کیا گیا ہے ، تاکہ انھیں انٹر پول کے ذریعے گرفتا ر کیا جا سکے ۔انھوں نے
مزید بتایا کہ 10 ہزار پولیس اہل کاروں ، 2 ہزار ریٹائرڈ آرمی اہلکاروں اور
400 انویسٹی گیشن افسران کی بھرتیاں بھی جاری ہیں۔ انسداد ِ دہشت گردوں کی
عدالتوں میں بھیجے گئے 705 چالانوں میں سے 59 کے فیصلے ہوچکے ہیں ۔ 5 سزا
یافتہ قیدی صوبے سے باہر ، جب کہ 77 کو کراچی سے باہر کی جیلوں میں منتقل
کیا گیا ہے ۔
قائم مقام آئی جی پولیس سندھ غلام حیدر جمالی نے کابینہ کو بتایا کہ ٹارگٹڈ
آپریشن کے باعث قتل کیسز میں 33 فی صد ، ٹارگٹ کلنگ میں 65 فی صد ، اسٹریٹ
کرائم میں 6 فی صد اور بھتا خوری کے کیسز میں 9 فی صد تک کمی ہوئی ہے ۔
کراچی آپریشن کے سلسلے میں سندھ کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے اہم فیصلے
اللہ کرے مؤثر ثابت ہوں ۔ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ فقط فیصلوں سے کام نہیں
چلے گا ۔ اصل بات ان فیصلوں پر عمل پیرا ہونا ہے ۔ اس اجلاس میں ہونے والے
فیصلوں میں سے اگر آدھے فیصلوں پر بھی عمل کر لیا جائے تو اچھے نتائج بر
آمد ہو سکتے ہیں ۔ ستمبر 2013 ء سے شروع ہونے والے اس آپریشن میں سندھ
حکومت (بہ قول ان کے اپنے) 20 ارب روپے خرچ کر چکی ہے ۔ موجودہ وفاقی حکومت
نے کراچی کے حالات کی بہتری کے لیے جو پالیسی اپنائی ہے ، وہ قابل ِ ستائش
ہے ۔ مجموعی طور پر حالات میں واقعی تبدیلی آئی ہے ۔ قائم مقام آئی جی کے
پیش کردہ اعداد و شمار اس بات کا مظہر ہیں کہ حالیہ آپریشن سے واقعی بہت سی
مثبت تبدیلیاں آئی ہیں ۔ تاہم شہر ِ قائد اب بھی مکمل طور پر سکھی نہیں ہوا
۔ اپنے دامن میں بلا تفریق ِ مذہب ، مسلک و زبان ہر ایک کو پناہ دینے والا
یہ پیارا شہر اور اس کے پیارے باسی اب بھی تشنہ ِ امن ہیں ۔ روزانہ لاشوں
کا گرنا اب بھی معمول ہے ۔ اس لیے مزید محنت کی ضرورت ہے ۔ میں اور میری
طرح کے شہر ِ قائد کے باسی اس دن سیاسی اور سیکورٹی حکام کے کار کردگی سے
مطمئن ہوں گے ، جس دن یہاں فرقہ واریت ، لسانیت ، صوبائیت ، سیاست وغیرہ کے
نام پر ہونے والے قتل کا سلسہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تھم جائے گا ۔ جب یہاں
بوری بندلا شوں کا ملنا قصہ ِ پارینہ بن جائے گا ۔ جب یہاں بھتا خوری ہمیشہ
ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی ۔ تب ہم سمجھیں گے کہ واقعی یہ شہر پر امن ہو
گیا ہے ۔ بہ صورت ِ دیگر ، سیاست کے شہ سواروں کے فیصلوں اور محافظین کے
مثبت اعداد و شمار کے باوجود ہم ایسے دل جلے گاہے بہ گاہے اپنی تحریروں کے
ذریعے شہر قائد کے نا گفتہ بہ حالات کا رونا روتے رہیں گے ۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ پاکستان کے سب سے اہم شہر کے حالات کی بہتری کے لیے
وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت اہم سیاسی جماعتیں ایک ہی صفحے پر آگئی ہیں
۔ یہی وجہ ہے کہ بدھ کوگورنر ہاؤس کراچی میں وزیر ِ اعظم نواز شریف کی زیر
ِ صدارت کراچی کے حالات پر اہم اجلاس ہو ا تو سابق صدر آصف علی زرداری ،
گورنر سندھ ، صوبائی وزیر ِ اعلیٰ ، آرمی چیف ، آئی ایس آئی کے سربراہ ، ڈی
جی انٹیلی جنس بیورو ، سیکرٹری داخلہ سندھ ،ڈی جی رینجرز ، قائم مقام آئی
جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی کراچی کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ ، جماعت ِ
اسلامی ، اے این پی اور مسلم لیگ کے نمائندوں نے بھی شرکت کی ۔ ان سب نے اس
اہم اجلاس میں شرکت کرکے یہ بات ثابت کردی کہ وہ سب کراچی کو جرائم سے پاک
کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ ہیں ۔ وزیر ِ اعظم نے اس اجلاس میں اتفاق ِ رائے
کے بعد آپریشن کے تیسرے مرحلے کی اجازت بھی دے دی ۔ سیاسی اور فوجی قیادتوں
نےاس امر پر اتفاق کیا کہ ٹارگٹڈ آپریشن کسی امتیا زاور دباؤ کے بغیر جاری
رہے گا ۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ پولیس کو فری ہینڈ دیا جائے
گا ۔ آپریشن کے دوران عسکری اور انٹیلی جنس ادارے کراچی پولیس اور رینجرز
کی مکمل معاونت کریں گے ۔ آپریشن کے دوران پیدا ہونے والی شکایات کے ازالے
اور غیر قانونی سموں کی بندش کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی جائے گی ۔ اس
کے علاوہ اور بھی اہم فیصلے کیے گئے ۔
ایک خبر کے مطابق شہر ِ قائد میں 2013 ء میں 20507 لوگ قتل کیے گئے۔ جب کہ
2012 میں مختلف وجوہات کی بنا پر قتل ہونے والوں کی تعدا د تقریبا 2000 رہی
۔ اب دیکھتے ہیں کہ 2014 ء کے اختتام پر اس ضمن میں اعداد و شمار کیا کہیں
گے ۔ کیوں کہ اس دفعہ شہر ِ قائد کے حالات کی درستی کے لیے سب یک جا ہو گئے
ہیں ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ برسوں سے لگی آگ ،حکام ِ بالا کی کوششوں سے بجھ
جائے گی ۔ مگر ۔۔۔۔ ہنوز دلی دور است !!
|