جناب نبی کریم ﷺکو جو اﷲ رب العزت کی طرف سے عام انسانوں
میں عام صفات میں اعلی ڈگری دی گئی ہے ،وہ ہے: ’’وانک لعلی خلق عظیم‘‘ اور
آپ اخلاق کے اعلی معیار پرفائز ہیں ۔ خود سرور کائناتﷺ کا ارشاد ہے :’’تمام
اہل ایمان میں کامل ترین مؤمن وہ ہے جسکے اخلاق عمدہ ہوں‘‘ ۔
اخلاق کا مفہوم سیرت وکرداردونوں کوشامل ہے ،آدمی کے افعال ،اقوال اور
اعمال اچھے ہوں اور ظاہر وباطن میں یکساں ہو ، بدنیت نہ ہو بلکہ نیک نیت ہو
، منافق نہ ہو بلکہ اس کی زندگی ایک کھلی کتاب ہو ،دوسروں کی تکریم اور
احترام سے اس کا قلب ودماغ لبریز ہو، ہرکسی کو اس کا جائز مقام دیناجانتاہو،
کج حجتی ، بے جاضد اور جہالت سے نفرت کرتاہو ،مسلّمات کو خواہ مخواہ کیلئے
نہ چھیڑتاہو، دوسروں پراپنی رائے دھونس ،دھمکی اور شور وغل میں تھوپتاہو،
ہرمعقول کی تایید اور نامعقول پرنکیر کرسکتاہو،اور اس طرح کے دیگر وہ تمام
صفات جوخیروبھلائی کی طرف دعوت دے رہی ہوں اور شروبرائی سے روک رہی ہوں ،
اخلاق ہیں۔ اخلاق کا تعلق قلب سے بھی ہے ،دماغ سے بھی ہے ،سوچ وفکر سے بھی
ہے، فطرتِ سلیمہ اور جبلت سے بھی ہے، باطن سے بھی ہے ، ظاہر سے بھی ہے ،بصارت
سے بھی ہے ،بصیرت سے بھی ہے ،عمل سے بھی ہے اور نظریہ وعقیدہ سے بھی ۔
اچھے اخلاق قوموں کی حیات ہے ،یہی ان کے سامنے لوگوں کے دل ، ان کی محبت ،ان
کا احترام اورہر طرح کی کامیابی کی راہوں کو اپنی طرف پھیرنے والی چیزہے ،
اخلاق کومال اوردولت پربھی فضیلت حاصل ہے ،قرآن کریم میں اﷲ تعالی نے
فرمایا:’’قولِ معروف بہترہے ، ایسے صدقات وخیرات سے جس کے بعد اذیت ہو‘‘،
اسی لئے کہاجاتاہے کہ اہل بصیرت حسن اخلاق کی مہک اور بداخلاقی کی بدبو
سونگھ سکتے ہیں ،گویا حسن اخلاق کی خوشبو اور بداخلاقی کی بدبوہے ، اگرچہ
ہر کسی کی ناک میں قوت شامہ اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ وہ ان دونوں کیفیات
کو محسوس کرسکے ۔
ـرشتوں اور جوب کے سلسلے میں آنے والے لوگ منافقت سے حسن اخلاق کا لبادہ
اوڑھکر آتے ہیں اور بعد میں جب وہ اپنی اصلی حالت میں ظاہر ہوتے ہیں ،تو
پتہ چلتاہے کہ یہ تو دشمن کو گھر میں یاادارے میں پالنا پڑرہاہے ،اس لئے
ایسے مواقع پر خوب جانچ پڑتال کی ضرورت ہے ، بھیڑیا بھیڑیا ہی ہوتاہے ،اگرچہ
شروع شروع میں وہ اپنی خصلت میں ظاہر نہ ہو ، لیکن ایک نہ ایک دن اس نے
اپنی فطرت کے مطابق خون کرنا ہی ہے اﷲ بچائے۔
میڈیا میں اخلاق باختگی کا مسئلہ تو واضح تھا ہی ، مگر جنکی بصیرت نہیں
ہوتی، انہیں نظر نہیں آتاتھا،اب جیو اور جنگ نے جب اخلاق کیا بداخلاقی کی
حدود بھی پار کردیں ، قومی اداروں سے لے کرصحابہ اور آل بیت رسول ﷺ کوبھی
نہ بخشا،تب جاکر کچھ لوگوں کو ان کی بدتہذیبی کا اندازہ ہوا،دیگرکچھ چینل
اور اخبارات بھی افسوس ہے کہ شرم وحیااور انسانی اعلی اقدار کے دشمن نظرآتے
ہیں ، کئی اینکر پرسن بے حیائی پھیلاتے ہیں ،کئی دروغ گوئی، کئی مال بٹورتے
ہیں ، کئی خائن اور غدار ہیں ،ایک مقدس پیشے میں اس طرح کے بھیڑیوں نے
اودھم مچارکھا ہے ،ہرطرف بدتمیزی ہی بدتمیزی ہے ، خود ساختہ مفکرین ومجددین
وشیوخ الاسلام براجمان ہوتے ہیں، کسی کا عنوان یہ تک ہوتاہے :’’ آج رات
فلانی کے ساتھ‘‘ ، لاحول ولاقوۃ الا باﷲ۔
پوری دنیا میں ہماری یہ حرکتیں ہماری قوم کیلئے جگ ہنسائی کی باعث بنتی
جارہی ہیں، بعض مرتبہ خیال گزرتا ہے،کہ کیا ان لوگوں کی اپنی مائیں،بہنیں
اور بیٹیاں نہیں ہیں، اسی طرح کیا ان فحاش عورتوں کا کوئی باپ،بھائی اور
بیٹا نہیں ہیں،کیوں نہ ہوں گے ، لیکن حرام خوری سے آدمی کی غیرت بھی جاتی
رہتی ہے،کہیں تمیز، شرافت ،پختگی ،وقار ، حلم ، عفو، رحم، کرم ، عدل ،
انصاف ، جود ، سخا،ایثار ، قربانی ،مہمان نوازی ،عدم تشدد ،برداشت ،شجاعت ،
بہادری ، ایفائے عہد، وفاداری ،قناعت، حسن معاملہ ،صبر ، نرم گفتار ی، خوش
روئی ، ملنساری ، مساوات ، غمخواری ، ہمدردی ،سادگی ، بے تکلفی ،تواضع ،
انکساری ،حیاداری ، عفت ،پاک دامنی ، غیرت،امانت دیانت ،باضمیری جیسے الفاظ
اور کردار کانام ہی نہیں، گو یاہماری ڈکشنریاں ان سے خالی ہوگئی ہیں ،ایسے
میں خدا کے لئے اخلاق اور ایمانداری سے جی سکتے ہو،تو جیو، ورنہ مت’’ جیو‘‘۔ |