حافظ محمد ذوہیب حنیف (ریسرچ اسکالر)
طائف کا سفر ہے اﷲ کے رسول ﷺ تبلیغ کے سلسلے میں لوگوں کو ایک اﷲ کی دعوت
دے رہے ہیں اس کے جواب میں اہل طائف نے آپ ﷺ کے ساتھ جوسلوک کیا اس کی مثال
تاریخ میں نہیں ملتی واپسی پر اہل طائف نے آپ ﷺ پر پتھر مارے جس کی وجہ سے
آپ کی نعلیں مبارک خونم خون ہوگئیں آسمان لرز اٹھا فرشتوں کی برداشت بھی
جواب دے گئی جبرائیل آتے ہیں او ر کہتے ہیں یا رسول اﷲ ﷺ حکم دیں میں ان پر
پہاڑ گرادوں آپ ﷺ کا جواب بھی ایسا کہ جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی آپ
نے فرمایا مفہوم’’ نہیں کیا پتہ ان کی آنے والی نسلیں اسلام سے بہرہ مند
ہوجائیں ‘‘ اور یہی ہوا چند سال ہی گزرے کہ اہل طائف،مشرف با اسلام ہوگئے ۔یہ
تھا اسو ۃ حسنہ ،مگر اس کے برعکس آج کے اس جدید ترقی یافتہ دور میں اسوۃ
حسنہ کہیں نظر نہیں آرہا صبر ،برداشت ختم ہوتی جارہی ہے عدم ِ برداشت فروغ
پا رہا ہے جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے فرقہ بازی کا عروج ہے جس کی وجہ سے
ایک دوسرے پر الزامات اور کفر کے فتوے لگائے جارہے ہیں نتیجہ یہ ہورہا ہے
کہ ملک میں ترقی کا نام و نشان تک نہیں دراں حال یہ کہ ازروئے قرآن اﷲ نے
فرقے بازی کو منع فرمایا ’’اور آپس میں تفرقے میں مت پڑ ھو‘‘(آل عمران۱۰۳)
جب فرقے بازیا ں ہوتی جائیں گی تو پھر ملک ترقی کیسے کرے گا اقبا ل نے کیا
خوب کہا ہے :
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دیں بھی، ایمان بھی ایک
حرم ِ پاک بھی ،اﷲ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلما ں بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
سب سے بڑا مسئلہ ہے عدم ِ برداشت ۔ ایک دوسرے کے خیالات کو تحمل سے سننے کی
ہمت ہی ختم ہوتی جارہی ہے اور معاملہ اس حدتک چلا گیا ہے کہاایک دوسرے کے
جانی دشمن ہوگئے ہیں ۔بہر حال اگر فرقے بن گئے ہیں جو کہ نہیں بننے چاہیئے
تھے لیکن پھر بھی اب جو صورتحال ہے اس میں صبر اور برداشت کا دامن ہاتھ سے
نہیں چھوڑنا چاہیئے ۔ ساتھ ساتھ لسانی تعصب بھی فروغ پارہا ہے کہ میں
پنچابی تو بلوچی ،پٹھان، مہا جر وغیرہ ۔لسانی تعصب کی وجہ سے قتل و غارت
گری کا بازار سر گرم ہے۔آخر کیا حل نکالا جائے کہ لوگوں میں برداشت کو فروغ
ملے ،برداشت کا مادہ پیدا ہو تا کہ ایک صحت مند معاشرہ وجود پزیر ہو
سکے۔اختلاف کرنا کوئی جرم نہیں ہمارے اسلاف کی مثالیں سامنے ہے امام
ابوحنیفہ کے شاگرد ِ رشید امام ابو یوسف اکثر معاملات میں آپ سے اختلاف
کرتے نظر آتے ہیں کیا کوئی دشمنی ہوئی؟ با لکل نہیں ،قرآن نے جو اصو ل
بتایا ہے وہ بڑا حکیمانہ ہے اگرچہ وہ اصول دوسرے مذاھب سے متعلق ہے لیکن
پھر بھی قرآن کہتاہے کہ اگر بحث ہوجائے تو ’’اور ان سے (دوسرے مذاہب کے
لوگو ں سے )احسن طریقے بحث کرو‘‘(النحل ۱۲۵)راقم نے موجودہ حالات کے پیش ِ
نظر چند تجاویز پیش کیں ہیں کہ اگر ان پر قابو پالیا جائے تو امید ہے کہ
بہتری آجائے
۱۔قرآنی تعلیمات بلاتعصب عوا م میں عام کی جائیں
۲۔تمام مسالک کے اسلام کی عزت و قدر کریں یہ کام ظاہر ہے علماء کریں گے۔
۳۔علماء و دانشور عوام میں برداشت اور عدم برداشت کا فرق واضح کریں ۔
۴۔ایک دوسرے کے خیالات کو کھلے ذہن سے تسلیم کریں
۵۔بحث علمی بنیادو ں پر کی جائے۔
۶۔فرقہ پرستی کی حوصلہ شکنی کی جائے
۷۔اتحاد بین المسالک کے باقاعدہ پروگرامز ترتیب دئے جائیں۔
۸۔لسانی تعصب ختم کیا جائے۔
یہ چند تجاویز ہیں جس پر عمل کرلیا جائے تو احقر کی ذاتی رائے ہے کہ فائدہ
ہوگا
یوں تو سید بھی مرزا بھی افغان بھی ہو
تم سب ہی کچھ ہو بتاؤ تو مسلماں بھی ہو۔۔ |