رنگ بازیاں…… سنجیدگی
ہر بندہ شارٹ کٹ کے چکر میں دوسروں کو چکر دینے کے چکر میں سرگرداں رہتا
ہے……محنت اور جدوجہد سے کمانے اور ترقی کی منازل طے کرنے پر کوئی بھی تیار
و آمادہ نہیں ہے……حالات کے جبر نے جو کچھ مجھے سیکھایا ہے ۔وہ یہ ہے کہ
بحثیت قوم ہم نے سوچنا ،سمجھنا ترک کر دیا ہے ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ترقی اور
کامیابی انہیں قوموں کے حصے میں آتی ہیں ۔جو تحقیق کے عمل کو جاری رکھتی
ہیں۔ جو محنت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھتی ہیں……جو سنجیدہ ہوتی ہیں اور
سنجدگی کو مقصد اولین کا درجہ دیتی ہیں…… چونکہ تحقیقی عمل سنجیدگی کا
دوسرا نام ہے۔جومعاشرے سنجیدگی اور تحقیق کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ پھر وہاں
غیر سنجیدہ اور غیر معیاری عوامل لینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں……تحقیق اور
جستجو سے کنارہ کشی اختیار کرنے والی قوموں میں بقول’’ کشمیر‘‘ لنڈن کے
مبین چودہری ’’ رنگبازیاں‘‘ غالب آجاتی ہیں…… اگر ہم اپنے ارد گرد نظر
دوڑائیں تو ہمیں مختلف ’’بازیاں ‘‘ موجود مل جائیں گی ……جن میں سودے
بازیاں’’جگت بازیاں‘‘ اور دیگر قسم کی بازیاں شامل ہیں۔کبوتر بازیاں،پتنگ
بازیاں ، فراڈ بازیاں، رنڈی بازیاں اور عشق بازیاں اس کے علاوہ ہیں۔
جس معاشرے سے حکمت و دانائی اٹھ جاتی ہے وہاں ’’ پیٹ پوجا‘‘ خود غرضی کا
راج ‘‘ ہوتا ہے۔ ہاں ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جو قومیں اور
معاشرے اپنے حکیم و دانا بزرگوں کی نصیحتوں کو لکڑی اور لوہے کے بکسوں میں
بند کرکے رکھ دیتے ہیں۔ وہ قومیں اور معاشرے بھلائی اور فلاح کی حدود سے
باہر نکل جاتے ہیں……ان معاشروں میں سے ادب ،حیا،امن سکون اور چین مفقود
ہوجاتا ہے۔ ہر طرف بدامنی، بے یقینی،لوٹ مار ،قتل وغارت ،و دہشت گردی اور
خود غرضی کے جن بھنگڑا ڈالتے ہیں……رزق سے برکت اٹھ جاتی ہے، لاکھوں کمانے
کے باوجود لوگ کہتے پھرتے ہیں ’’ یار پوری نہیں پڑتی‘‘ اور پیسے کا کچھ
نہیں بنتا‘‘ پتہ نہیں ہو کیا گیا ہے ……یا پھر یہ کہتے ہیں کہ یار مجھے کسی
نے کچھ کروا دیا ہے، پیسے کی بے برکتی کو جادو ٹونے کا کمال قرار دیکر اپنے
برے اعمال سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔
معروف شاعر جون ایلیا نے کسی زمانے میں کہا تھاکہ ’’اب کسی آدمی کے قتل
ہونے کی خبر نہیں رہی…… ہوسکتا ہے کہ قتل کی خبریں اپنا اثر کھودینے کے
باعث آئندہ اخباروں میں چھپنی بند ہو جائیں؟‘‘برصغیر کے بلند پایہ عالم دین
اور عالمی سطح کے سیاسی راہنما حضرت مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا تھا ’’
دو شرابی میخانے میں بیٹھ کر شراب بانٹتے ہوئے، پیمانہ ٹکراتے ہوئے ایک
ساتھ شراب پی سکتے ہیں……ناگ اور بچھو ایک جگہ رہ سکتے ہیں……لیکن مختلف
مسلک،بطقہ فکر کے دو عالم ایک بات پر مسجد کے صحن میں ایک ساتھ نہیں بیٹھ
سکتے‘‘ جون ایلیا مذید کہتا ہے ’’ دنیا میں صرف ایک ہی ایسا مقام ہے۔ جہاں
دو مختلف مذہب یکجا نظر آتے ہیں۔اور وہ ہے میدان جنگ۔‘‘
برصغیر پاک و ہند کے انقلابی راہنما مولانا عبیداﷲ سندھی نے کہا تھا ’’غلام
قوم کے معیار بھی عجیب ہوتے ہیں۔شریف کو بے وقوف ،مکار کو چلاک،قاتل کو
بہادر اور مالدار کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں‘‘بقول نذیر ناجی صاحب ’’ پاکستان
کے مولوی اپنی تمام تر جدیدیت کے باوجود سوائے انتخابی ضرورتوں کے کبھی ایک
جگہ متحد نہیں ہوئے ۔مساجد اور مدرسے انکا کاروبار وابستہ ہیں۔لیکن پاکستان
کی تاریخ شاہد ہے کہ ان جدیدیت کے حامل مولویوں نے کبھی اپنے مفادات کو
قربان کرکے اپنے دروازے تمام مسلمانوں کے لیے وا نہیں کیے‘‘ کسی بزرگ کا ہی
قول ہے کہ ’’ کمزور کبھی معاف نہیں کر سکتا ،معاف کرنا مضبوط لوگوں کی صفت
ہوتی ہے‘‘
عظیم لیڈر نیلسن میڈیلا کہتا ہے کہ ’’ غربت خیرات سے نہیں انصاف سے ختم
ہوتی ہے‘‘مگر ہم عوام اور وہ بھی غریب عوام کو بھاری مارک اپ پر سود ی قرضے
دیکر سمجھتے ہیں۔کہ ہم نے ملک سے غربت ختم کرنے کی جانب پہلا قدم بڑھا دیا
ہے۔ لیکن ہماری عدالتوں میں انصاف مہیا نہیں ہوتا بلکہ بکتا ہے……منصف کی
کرسی پر بیٹھے ججز مدعیوں اور ملزمان کی حثیت دیکھ کر فیصلے دیتے ہیں۔
نیلسن منڈیلا کی بات دراصل ہماری نبی آخرالزماں کے فرمان کی ہی صورت ہے۔ وہ
غلط نہیں ہو سکتا……جیسا کہ ریاض شاہد مرحوم کی فلم ’’ یہ امن ‘‘ جو کشمیر
کے سلگتے ہوئے مسلے پر بنائی گئی تھی اسکا ایک بہت مقبول عام گانے ’’ ظلم
رہے اور امن بھی ہو …… کیا ممکن ہے تم بھی کہو ……تم بھی کہو کے مصداق کیا
یہ ممکن ہے کہ عدالتوں میں انصاف بھی بکتا رہے ……تم سودی قرضے بھی دیتے رہو
اور لیتے بھی رہو ……پھر سمجھو کہ ملک سے غربت ختم ہو جائیگی؟ یہ کبھی بھی
ممکن نہیں -
مولانا جلال الدین رومی علیہ رحمہ فرماتے ہیں’’ ایک ہزار قابل انسان مر
جانے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا ایک ’’احمق‘‘ کے صاحب اختیار ہو جانے سے
ہوتا ہے‘‘حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اتنے سارے احمقوں کو وزارتوں
جیسے اہمیت کے اعتبار بڑے عہدوں پر فائز کر دیا جائے اورسمجھا جائے کہ ملک
سے بدعنوانی ،لوٹ مار کا خاتمہ کر دیا جائیگا؟خلیل جبران کہتا ہے ’’ قابل
رحم ہے وہ قوم جو جنازوں کے ہجوم کے سوا کہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی
اور ماضی کی یادوں کے سوا اس کے پاس فخر کرنے کا سامان نہیں ہوتا‘‘معروف
مفکر جون لینن کہتا ہے کہ ’’ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہمیں محبت
چھپ کر کرنی پڑھتی ہے اور جبکہ تشدد ہم دن دیہاڑے کرتے ہیں ‘‘ ایڈولف ہٹلر
کہتا ہے کہ’’ جب کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو سب سے پہلے اس کے اداروں کو
تباہ کرو ‘‘ آئی ایس آئی کے خلاف کتوں کے بھونکنے کو سمجھنے کے لیے ایڈوولف
ہٹلر کے بیان کی روشنی میں دیکھنا لازمی ہے-
جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے کئی برس ہوگے ہیں۔لیکن انکا کہنا حرف بہ حرف سچ
ثابت ہو رہا ہے۔ ٹی وی دہشتگردی کے واقعات کی خبریں نشر ہوتی ہیں۔دہشت زدہ
خونی مناظر دکھائے جاتے ہیں۔اخبارات میں دل دہلا دینے اور لرزا دینے والی
خبریں شائع ہوتی ہیں ۔تصویریں بھی ہمارے دل و دماغ کو جھجوڑنے میں ناکام ہو
رہی ہیں…… مولانا عبید اﷲ سندھی کو بھی ہم سے رخصت ہوئے ایک لمبا عرصہ بیت
گیا ہے۔ کہنے کوتو عبیداﷲ سندھی ایک مولوی ہی تھی کیونکہ انکی وضع قطع
مولویوں جیسی ہی تھی ۔لیکن حقیقت میں یا اندر سے وہ ہمارے روایتی مولوی
جیسے نہ تھے۔انہوں نے اپنے وقت میں عوام کو فکر دی،شعور عطا کیا حلوے مانڈے
کی مخالفت کی…… انہوں نے مولویوں سے کہا کہ کھیتی باڑی کرو محنت کرو مخض
جمعرات کی روٹیوں پر قناعت نہ کرو لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرو……
’’زندگی کو ہمیشہ مسکرا کر گذارو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ یہ کتنی باقی
ہے‘‘
خبر شائع ہوئی ہے’’چنیوٹ میں ایک زمیندار نے ذاتی رنجش ہر استاد کا منہ
کالا کرکے گدھے پر بٹھا دیا‘‘
لالہ جی کا قول ہے کہ ’’پاکستان اس وقت ترقی کرنا شروع کریگا جب ہم استاد
کو ایک فوجی سے زیادہ عزت دینی شروع کریں گے ‘‘ اس وقت ہماری یہ پوزیشن ہے
کہ ہمیں بس اپنی فکر رہتی ہے۔ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ہمارے پڑوس
میں کیا ہو رہا ہے ،کون جیتا ہے اور کون مرتا ہے۔ ہم اس قدر خود غرض ہو گے
ہیں کہ کچھ اپنے ،اپنے بال بچوں کے علاوہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔کسی کی مالی
طور پر مدد کرنا تو درکنار ہم نے اپنے دوستوں کے جنازوں میں بھی شرکت کرنا
ترک کر دی ہے۔اگر یہی روش کو برقرار رکھا گیا تو بقول اپنے بابا تلقین شاہ
المعروف حضرت اشفاق احمد’’ ایک دن ہم سب ایک دوسرے کویہ سوچ کر ’’کھو ‘]
دیں گے کہ جب وہ یاد نہیں کرتا تو میں اسے کیوں یاد کروں‘‘ |