غالبَا 29اپریل کا دن تھا نو بجے صبح کا نا شتہ کر رہا
تھا اور انٹر نیٹ پر مختلف اخبار کا مطا لعہ کر رہا تھا کہ ایک ہا کر کا
ٹیلی فون آیا کہ سفید کپڑوں میں ملبوس لڑکیاں جن کی تعداد تقریبا سو کے لگ
بھگ تھی سول ہسپتال سے پر یس کلب کی طر ف آرہی ہیں کیمرہ اٹھا کر مو ٹر
سائیکل پر پریس کلب پہنچا تو دیکھا کہ وا قعی سفید کپڑوں میں ملبوس سو کے
قریب تعداد میں لڑ کیا ں پورے چوک کو گھیر کر احتجا ج کر رہی ہیں پو چھا تو
پتہ چلا کہ نرسنگ اسکول کی طا لبہ ہیں اور انکے ہا سٹل کی بجلی گزشتہ پا نچ
چھ دنوں سے بل کی عدم ادائیگی پر بند ہے ۔حوا کی یہ بیٹیاں مسلسل لا ئٹ چا
ہیے لا ئٹ چاہیے کے نعرے فضا میں بلند کر رہی ہیں ۔ انکی ڈیما نڈ تھی کہ
ڈپٹی کمشنر سکندر علی خشک آئیں اور وہ انھیں یقین دھا نی کرا ئیں تو احتجا
ج ختم ہو گا وہ بھی اس شرط پر کہ ا نکے ہا سٹل کی بجلی بحا ل ہو ۔نو بجے سے
لے کر بارہ بج گئے مگرڈی سی اطلا ع کے باوجود آنے کا نام ہی نہیں لے رہے
تھے اسی دوارن قیامت خیز گر می میں چار نر سیں بے ہو ش ہو کر گر گئیں ۔ آخر
کا ر واقعے کی اطلاع سیشن جج کے نو ٹس لا ئی گئی تب جا کر ڈی سی اور ڈی ایچ
او آئے اور نر سو ں کو ہا سٹل لے جا یا گیا نر سنگ اسکول میں مزاکرات کا
عمل شروع ہوا تو نرسوں نے کہا کہ صرف ڈی سی اور صحا فیو ں کے سامنے بات ہو
گی کیو نکہ ہما رے دیگرمطالبات ہیں ۔نر سوں کی بات ما نتے ہو ئے ڈی سی نے
ڈی ایچ او ڈاکڑ شگفتہ سمیت پرنسپل نگھت کو بھی با ہر جا نے کا کہا تو نر
سوں نے بتایا کہ ہم سے پرنسپل نگھت اپنے گھر کے کام کروا تی ہے ،آفس میں
جھا ڑو پو چھے کے علاوہ با تھ روم کی صفا ئی کر واتی ہے ہا سٹل کے دس باتھ
روم میں صرف ایک باتھ روم کھو لا ہو اہے چھ دن سے بجلی منقطع ہے نہ ہمیں
چھٹی دی جا رہی ہے جب کہ پرنسپل کے آفس میں بجلی اور جنریٹر کی سہولت بر
قرار ہے یہاں تک کہ اگر ہمارے بھا ئی یا والدین ملنے کے لئے آتے ہیں تو
انھیں ہمارا یار بنا دیا جا تا ہے ہمارے ساتھ قیدیوں جیسا سلوک کیا جا تا
ہے ہر ماہ ہمارے وظیفے میں پیسے کاٹ لئے جا تے ہیں اگر کو ئی بھی نرس ان کا
موں سے انکار کر ے تو اسے اسکول سے فار غ کر نے کی دھمکیاں دیں جا تی ہیں
۔اتنے میں چھ نر سیں کمرے میں آئی اور کہا کہ اگر میڈم نگھت کو اسکو ل سے
نکا لا گیا تو ہم احتجا ج میں اپنے آپ کو آگ لگا لیں گی ۔تو ڈی سی پر یشان
ہوئے معا ملہ کیا ہے بحرحال ڈی سی نے ان چھ نر سوں کے نا م پو چھے اور
معلومات لی تو چھٹی نر س نے بھا نڈا پھوڑتے ہو ئے کہا کہ سر ہمیں باہر سے
پر نسپل میڈم نگھت نے پڑھا کر بھیجا ہے تو سب صحا فی حیران ہو ئے اور سو
چنے لگے کہ ڈی سی صا حب سخت کا روائی کر یں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہو اپر
نسپل نگھت نے اپنی صفا ئی میں کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے ۔تو ڈ ی سی سکندر
علی خشک نے نر سوں کو کہا کہ آئندہ ایسا کچھ نہیں ہو گا اور بجلی بحا ل کر
واکر کو چ کر گئے کہاں گئی انکوائری اور کہا گئی سخت کا روائی ۔ایک ہفتہ
گزر جانے کے بعد احتجاج کر نے والی نر سوں کو دھمکیا ں ملنی شروع ہو گئیں
اور پر نسپل کی جا نب سے انتقا می کاروائیوں کا سلسلہ جار ی ٹیچر مصطفٰی جو
پچھلے پا نچ سال سے نر سنگ اسکول میں پڑھا رہا تھا اور پر نسپل نے ایک نئے
ٹیچر پطرس کو اسکول میں تعینات کر وایا ایک دن کلاس لینے اور پیریڈ ختم ہو
نے پر دو نوں ٹیچروں میں تصا دم ہو ا جس میں ٹیچر مصطفٰی زخمی ہوا اور معا
ملہ پو لیس تک جا پہنچا مگر پو لیس کو واپس کر دیا گیا نر سوں نے چیخنا
چلانا شروع کر دیا میڈیا کی ٹیم گئی تو پر نسپل کو نا خوش گوار گزرا سول
سرجن نے انکوا ئری کا لیٹر جا ری کر دیا انکوائر ی کے دوران میں بھی نر سنگ
اسکول گیا تو انکوائر انچارج ڈاکٹر جمیل نے کہا کہ آفس میں بات کریں گے
حالا نکہ نر سیں میڈیا سے بات کر نا چا ہیتی تھیں اپنے ساتھ ہو نے والی زیا
دتیاں شئیر کر نا چا ہتی تھیں مگر پرنسپل نگھت نے انھیں ڈا نٹ ڈپٹ کے بھگا
دیا ہم ڈاکٹر جمیل کے آفس میں آگئے تو دونوں ٹیچروں کو یہ کہا گیا کہ اسکو
ل بند ہو جا ئے گا لہذا مٹی پا ؤ کے فارمو لے کے تحت غلط فہمی ہو نے کی
بنیاد پر لڑا ئی ہو ئی کا قصہ لکھ کر انکو ئری کو بھگتا دیا گیا مگر وہاں
ہسپتال عملے کے ایک فرد نے کہا کہ نر سیں ہماری دیکھی ہو ئی ہیں سب کے
ہمارے پاس ثبوت ہیں ۔جبکہ پرنسپل کے بارے میں ایک اور فرد نے انکشاف کیا کہ
پرنسپل نگھت اپنے گھر پر نر سوں سے نشے کے انجیکشن لگواتی ہے۔ ایسا معلوم
ہو رہا تھا کہ نر سنگ اسکول درس گا ہ کے بجا ئے نشہ گا ہ اور برا ئیوں کی
پناہ گا ہو جہاں طلباء پرطرح طرح کے الزامات اور ایک ایسی ہیڈ کی تعیناتی
جو نشے کی عادی ہو اور اس کے اوپر سارے معاملے کی انکوائری تک نہ ہو جب کے
خبروں سے اخبارات بھرے پڑے ہو ں اور پھر بھی کچھ نہ ہو تو ایسی صورت میں
ایک صحا فی ہو نے کے نا طے مجھے کیا کر نا چا ئیے تو میں نے دل میں تہیہ کر
لیا کہ اس معا ملے کا کہیں سرا لگا نا ہے ۔ایک بات طے ہے کہ انتظا میہ میں
کو ئی امید نہیں ہے کیو نکہ جب ڈی سی کے سامنے پرنسپل کی چا لاکی کا بھانڈا
پھوٹا تو غیر جا نبدار انکوائری ہو نی چا ئیے تھی یا مقدمہ درج ہو نا چا
ئیے تھا مگرابھی تک کچھ نہیں ہو ااب آپ بتا ئیں مجھے کیا کر نا چا ئیے۔کچھ
دوستوں نے کہا کہ پرنسپل پاور فل ہے اسے کچھ نہیں ہو گا اب میں عدالت کا
دروازہ کھڑ کا ؤں یا دوسروں کی طرح چپ ہو کر آنکھیں بند کر کے بیٹھ جا ؤں
آپ کے مشورے کا انتظا رہے ۔ |