دنیا بھر کی سیاسی، تعلیمی، تفریحی، صحافتی، فیشن اور
فنون لطیفہ پر گہرے اثرات مرتب کرنے والا بین الاقوامی شہر لندن ایک بار
پھر دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس بار لندن کی شہرت اس وجہ سے ہوئی ہے کہ
لندن اب دنیا کے امیر ترین لوگوں کا شہر بن گیا ہے۔ لندن برطانیہ کا
دارالخلافہ بھی ہے اور اس کا سب سے بڑا شہر بھی۔ کہتے ہیں کہ اس کی بنیاد
تقریباً دو ہزار سال پہلے قدیم رومیوں نے رکھی تھی۔اس کے قیام سے آج تک
لندن بہت سے تحریکوں اور عالمگیر واقعات کا مظہر رہا ہے، جس میں انگریزی کا
ارتقاء ، صنعتی انقلاب اور قدیم رومیوں کا احیاء بھی شامل ہیں۔ یہ بھی کہا
جاتا ہے کہ مرکزِ شہر اب بھی وہی قدیم شہرِ لندن ہے، جس میں اب بھی قرون
وسطٰی کی حدود نظر آتی ہیں، تاہم کم از کم اْنیسویں صدی سے نام ‘‘لندن‘‘،
اْن تمام علاقوں تک پھیل گیا، جو اس کے اطراف و اکناف میں آباد ہوئے تھے۔
آج آبادیوں کا یہ ہجوم لندن، برطانیہ کے علاقوں اور عظیم لندن کے انتظامی
علاقے اور مقامی طور پر منتخب ناظم اور لندن دستور ساز مجلس کا حامل ہے۔
لندن دنیا کے ممتاز تجارتی، معاشی اور ثقافتی مراکز میں سے ایک ہے۔ لندن
چار یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ کا حامل شہر بھی ہے ویسٹمنسٹر محل اور
کلیسائے ویسٹمنسٹر، کلیسائے سینٹ مارگریٹ، لندن بْرج، گرینچ کی تاریخی
آبادی اور شاہی نباتیاتی باغیچہ، کیو۔ لندن دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی
دلچسپیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔بھانت بھانت کے لوگ، مختلیف مذاہب اور
ثقافتوں کا گہوارہ ہونے کی وجہ سے اس شہر میں تین سو سے زائد زبانیں بولی
جاتی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں کی آبادی 75,12,400 ہے جو کہ
عظیم لندن کی حدود میں ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یورپی اتحاد کا سب سے بڑا شہر
ہے۔ لندن کی نئی وجہ شہرت یہ بنی ہے کہ یہاں دنیا کے کسی بھی شہر کے مقابلے
میں سب سے زیادہ ارب پتی افراد رہتے ہیں۔ برطانیہ مجموعی طور پر 104 امیر
ترین افراد کا گھر ہے جن میں سے 72 لندن میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ تعداد
نیویارک کے ارب پتی افراد کے مقابلے میں تقریبا دوگنی ہے۔'سنڈے ٹائمز رچ
لسٹ' کے مطابق 'سپر رچ' لوگوں کے لیے لندن ایک مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا
ہے جہاں دنیا کے تقریباً 10 فیصد ارب پتی آباد ہیں اور لندن نے پہلی بار
بلینئرز کے شہر ماسکو اور نیویارک پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ماسکو امیر ترین
لوگوں کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کے باشندوں میں 48 ارب پتی شامل ہیں۔ ماسکو
کے بعد نیویارک 43 امیر ترین شخصیات کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔اس کے علاوہ
سان فرانسسکو میں 'سپر رچ' افراد کی کل تعداد 42 ہے جس کے بعد پانچویں
پوزیشن پر لاس اینجلس ہے جہاں مجموعی طور پر 38 ارب پتی آباد ہیں۔ دیگر
ملکوں اور شہروں میں ہانگ کانگ، بھارت، بیجنگ اور سنگاپور میں بڑی تعداد
میں بلینئرز آباد ہیں۔برطانیہ کے امیر ترین لوگوں میں سے صرف ایک تہائی
افراد ایسے ہیں جو برطانیہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ لندن کے 72 ارب پتی افراد
میں سے 39 دولت مندوں کا تعلق دوسرے ملکوں سے ہے جو برطانیہ میں آکر آباد
ہوئے جبکہ برطانیہ سے باہر پیدا ہونے والوں کی تعداد 44 ہے۔برطانوی سپر
دولت مندوں کی فہرست میں ایک پاکستانی بھی شامل ہے۔ ان کا نام سر انور
پرویز ہے جو 1960کی دہائی میں برطانیہ منتقل ہوئے تھے۔ وہ 'بیسٹ وے کیش
اینڈ کیری' کے مالک ہیں اور دولت مندوں کی گنتی میں 72 ویں نمبر پر
ہیں۔برطانیہ میں رہنے والے دولت مندوں کے مجموعی اثاثوں کی کل مالیت 301
ارب پونڈ بنتی ہے۔ اس فہرست میں بھارتی نثراد ارب پتی شری چند اور گوپی چند
ہندوجا گروپ کے مجموعی اثاثوں کی مالیت 11.9 ارب پونڈ ہے جس کے ساتھ وہ
برطانیہ کے امیر ترین افراد میں اول نمبر پر ہیں۔روسی نژاد علی شیر عثمانوف
10.65 ارب پونڈ کے ساتھ دوسرے امیر ترین شخص ہیں۔متل اسٹیل کے مالک بھارتی
شہری لکشمی متل 10.25 ارب پونڈ کے اثاثوں کے ساتھ برطانیہ کے تیسرے ارب پتی
بن گئے ہیں۔برطانوی ارب پتی ڈیوک آف ویسٹ منسٹر 8.5 ارب پونڈ کی مالیت کے
ساتھ دولت مند افراد کی فہرست میں دسویں نمبر پر ہیں۔ ان کے علاوہ مشہور فٹ
بال کلب چیلسی کے مالک رومان ابرامووچ کا شمار ارب پتی افراد کی فہرست میں
نویں نمبر پر کیا گیا ہے۔مجموعی آبادی اور ارب پتی افراد کے تناسب کے لحاظ
سے بھی برطانیہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جہاں ہر چھ لاکھ سات ہزار شہریوں
میں سے ایک فرد ارب پتی ہے۔ اس کے برعکس امریکہ میں تقریبا دس لاکھ شہریوں
میں سے ایک فرد ارب پتی ہے۔ دولت دولت کو کھینچتی ہے اس لئے برطانیہ کی
مالیاتی ساکھ غیرملکیوں کو لندن کی جائیداد میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف
مائل کرتی ہے۔ جبکہ امریکہ کے برعکس برطانیہ میں نان ڈومیسائل لوگ اپنی
گلوبل ویلتھ پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں۔ انھیں صرف برطانوی آمدنی پر
ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں ارب پتی افراد کی تعداد
میں ایک دہائی میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس برطانوی ارب پتی شہریوں
کی کل تعداد 88 تھی اور ان کی مجموعی دولت کا تخمینہ 246 بلین پونڈ تھا۔
لندن کا نام لندن کیوں ہے یہ بات ہنوز صیغہ راز میں ہے۔ کوئی اسے جیوفرے آف
منماؤتھ برطانیہ کی قبل از تاریخ سے جوڑتا ہے تو کوئی کہتا ہے کہ یہ نام
اسے اس وقت کے برطانوی بادشاہ لد کی بدولت ملا، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ
اْس نے لندن پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کا نام کیرلد رکھا تھا۔ کیرلد وقت
کے ساتھ ساتھ کیرلدن اور پھر آخر کار لندن ہوگیا۔ اس سلسلے میں اور بھی کئی
قیاس آرائیاں ہیں، جوکہ گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں، جن میں سے
زیادہ تر کے مطابق یہ نام ویلزی یا برطانوی لفظ سے اخذ کردہ ہے جبکہ بعض کے
مطابق یہ متروک شدہ پرانی انگریزی حتٰی کے بعض کے مطابق یہ لفظ عبرانی سے
لیا گیا ہے۔ارب پتیوں کے اعتبار سے لندن کو کئی معاصر شہروں نیویارک اور
ماسکو پر سبقت حاصل ہے۔ اس وقت لندن میں مجموعی طور پر 72 ارب پتیوں کی
دولت ایک کھرب آسٹریلوی پاؤنڈ یعنی ایک کھرب 60 ارب امریکی ڈالر بنتی ہے۔
ان ایک سو چار امرا کی کل دولت پانچ کھرب سات ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔مجموعی
آبادی میں ارب پتیوں کے تناسب کے اعتبار سے بھی برطانیہ کو سبقت حاصل ہے۔
برطانیہ میں ہر چھ لاکھ 70 ہزار افراد میں ایک ارب پتی موجود ہے جبکہ
امریکا میں ایک ملین لوگوں میں صرف ایک ارب پتی ملتا ہے۔ تاہم ایک دوسرے
پہلو سے لندن نیویارک اور ماسکو سے پچھے بھی ہے۔ لندن میں موجود نصف ارب
پتی مقامی نہیں بلکہ دوسرے ممالک کے تارکین وطن پر مشتمل ہیں۔ لندن میں
ایسے 39 ارب پتی موجود ہیں جن کی پیدائش مقامی نہیں، جبکہ مجموعی طورپر بھی
104 ارب پتیوں میں 44 غیر ملکی ہیں یعنی تارکین وطن میں سمجھے جاتے
ہیں۔برطانوی ارب پتیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بھارتی خاندان کو ہمیشہ یاد
رکھا جائے گا جس نے سنہ 1914 میں لندن میں"ھندوجا" نامی ایک کمپنی قائم کی
تھی۔ آج اس فرم میں 72 ہزار افراد کام کرتے ہیں۔ یہ کمپنی تیل، گیس، ذرائع
ابلاغ اور مواصلات سمیت کئی دوسرے اداروں میں سروسز فراہم کر رہی ہے۔اس کے
علاوہ 78 سالہ سریچانڈ اور اس کے 74 سالہ بھائی گوبشنڈ برطانیہ کے سب سے
دولت مند افراد سمجھے جاتے ہیں۔ جن کی مجموعی دولت وثروت گیارہ ارب نوے
کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے۔ بہر صورت لندن اس وقت ارب پتیوں کی دنیا کا مرکز ہے
جہاں دنیا بھر سے امرا کھچے چلے آتے ہیں۔تین سال قبل عرب ممالک میں شروع
ہونے والی بغاوت کی تحریکوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عرب امراء نے بھی
برطانیہ جیسے ملکوں کا رْخ کیا۔ ان کے ساتھ ان کا سرمایہ بھی لندن منتقل
ہوا۔ برطانوی حکومت نے بھی موقع غنیمت جانا اور عرب سرمایہ داروں کے لیے
ویزوں کی شرائط میں نرمی کر دی۔لندن حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق
سنہ 2013ء کے دوران عرب سرمایہ داروں کے لیے سنہ 2012ء کی نسبت 423 ویزوں
کا اضافہ ہوا۔ سنہ 2012ء میں عرب ممالک کے مخصوص افراد کے لیے 530 ویزے
جاری کیے گئے جبکہ 2013ء میں یہ تعداد 1038 تک جا پہنچی ہے۔ اس کا اندازہ
آپ اس امرسے بھی لگا سکتے ہیں کہ اسی عرصے میں چین کے سرمایہ کاروں کے لیے
95 کے بجائے 171، امریکیوں کے لیے 19 کے بجائے 66، روسیوں کے 99 کے بجائے
125 اور مصریوں کے لیے ویزوں کی تعداد دوگنا کر دی گئی تھی۔ایک غیر سرکاری
عالمی تنظیم 'اوکسفام' کی جانب سے شائع ہونے والی تحقیق میں انکشاف کیا گیا
ہے کہ ، برطانیہ کے پانچ ارب پتی خاندانوں کے مشترکہ اثاثوں کی کل مالیت 20
فیصد غریب برطانوی آبادی کی دولت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ برطانیہ کے
پانچ ارب پتی خاندانوں کی مال ودولت کا تخمینہ 28.2 ارب پونڈ لگایا گیا ہے
جو کہ غریب آبادی پر مشتمل 20 فیصد گھرانوں کی مشترکہ دولت 28.1 ارب پونڈ
کے مقابلے میں زیادہ ہے۔امدادی تنظیم نے تحقیقی رپورٹ کے لیے فوربیس میگزین
کی تازہ ترین دولت مند افراد کی فہرست سے حاصل کردہ اعداوشمار کو استعمال
کیا ہے۔اوکسفام کی جانب سے متنبہ کیا گیا ہے کہ برطانیہ کے امیر ترین 0.1
فیصد آبادی کی آمدنی میں تقریبا چار گنا تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس سے
معاشرے میں شدید عدم مساوات پیدا ہو رہی ہے۔ تنظیم کی جانب سے کہا گیا ہے
کہ موجودہ رپورٹ اقتصادی ناکامی کی ایک علامت ہے۔برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مٹھی بھر ارب پتی جن میں پراپرٹی سرمایہ
دار چارلس کیڈیگن اور اسپورٹس ڈائریکٹر باس مائیکل ایشلے کی املاک کی
مشترکہ مالیت تقریبا 12.6 فیصدغریب برطانوی لوگوں کی دولت کے مساوی ہے۔ارب
پتیوں کی فہرست میں سب سے اوپر جیرالڈ کیونڈش کا نام شامل ہے جو کہ چھٹے
ڈیوک آف ویسٹ منسٹر ہیں اور لندن اور مے فئیر میں سو ایکڑ سے زائد زمین کے
مالک ہیں۔ان کے بعد اس فہرست میں پراپرٹی ٹائیکون ڈیوڈ اور سمن ریوین کا
نام آتا ہے جن کے کل اثاثے 11.3 ارب پونڈ ہیں اس فہرست میں تیسرا نام لندن
سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں شری چند اور گوپی چند کا ہے جن کے کل اثاثوں
کی مالیت تقریبا 10 ارب کے لگ بھگ ہیں۔ان کے علاوہ اس فہرست میں چارلس
کیڈیگن جن کے خاندان کی کل مال ودولت کاتخمینہ 6.9 ارب پونڈ ہے جب کہ
مائیکل ایشلے کے خاندان کی کل دولت کا تخمینہ تقریبا 5.5 ارب پونڈ لگایا
گیا ہے۔ اوکسفام نے اس رپورٹ کے حوالے سے شدید فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے
کہا ہے کہ ،بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا عدم مساوات ایک شیطانی دائرہ ہے جس میں
دولت اور طاقت محض چند ہاتھوں تک مرکوز ہو کر رہ گئی ہے اور باقیوں کو بہت
پیچھے چھوڑیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ کے مفادات کی
خاطر مسلسل قوانین بنائے جا رہے ہیں مثلا زیادہ آمدنی کمانے والوں پر کم
ٹیکس عائد کرنے کی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔اوکسفام کے نتائج جنوری میں
شائع ہونے والی اس رپورٹ کے تناظر میں پیش کی گئی ہے جس میں بتایا گیا تھا
کہ دنیا کے 85 ارب پتیوں کے مشترکہ اثاثوں کی کل مالیت تقریبا نصف دنیا کی
آبادی کی دولت کے مساوی ہے۔اوکسفام کے ڈائریکٹر بین فلپ نے کہا کہ برطانوی
قوم ایک گہری تقسیم کا شکار ہے ایک طرف اشرافیہ یا امیر طبقہ کی آمدنی میں
تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب غریب طبقے کے لیے بنیادی ضروریات کو
پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک بین
الاقوامی تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا کے 85 امیر ترین افراد کی دولت
دنیا کی نصف غریب آبادی کی دولت کے برابر ہے۔برطانوی تنظیم 'آکسفام' نے
دنیا میں عدم مساوات کے موضوع پر جاری کی جانے والی اپنی تازہ رپورٹ میں
دعویٰ کیا ہے کہ دنیا کے امیر ترین افراد اپنی دولت میں اضافے کے لیے سیاسی
اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں جس کا بالواسطہ نقصان کم آمدنی والے افراد کو
برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امیر طبقہ ٹیکس
بچاتا ہے اور اپنی دولت کو حکام کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے اور اس میں مزید
اضافے کے لیے ہر ممکن جتن کرتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی معاملات
میں عدم شفافیت، ٹیکسوں کی چوری اور فلاحِ عامہ کے منصوبوں میں سرمایہ کاری
نہ کرکے مال دار طبقہ نہ صرف اپنی مالی اور سیاسی حیثیت مستحکم کرتا ہے
بلکہ اس دولت کی اگلی نسلوں تک منتقلی بھی یقینی بناتا ہے۔'آکسفام' نے اپنی
رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران میں بھارت میں ارب پتی
افراد کی تعداد میں 10 گنا اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق یورپ میں حکومتوں
کے بچت اقدامات سے مالدار طبقے کو کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا اور ان اقدامات
سے زیادہ تر متوسط اور غریب طبقے متاثر ہورہے ہیں۔ اس بات کا بھی اظہار کیا
گیا ہے کہ افریقی ممالک میں سرگرم بین الاقوامی کمپنیاں اور کارپوریشنز
ٹیکسوں سے بچنے کے لیے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتی ہیں جس کے باعث
ان ملکوں میں غربت کا مقابلہ کرنے کے لیے دستیاب وسائل مہیا نہیں
ہوپارہے۔برطانوی تنظیم نے اپنی یہ رپورٹ سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں 'ورلڈ
اکنامک فورم' کے ایک اہم اجلاس سے قبل جاری کی ہے جس میں دنیا میں دولت کی
عدم مساوی تقسیم پر بات ہوئی۔دنیا کی کاروباری شخصیات اور سیاسی رہنماوں سے
اپیل بھی کی جارہی ہے کہ وہ مختلف حکومتوں کی جانب سے متوسط اور غریب طبقوں
کی فلاح کے لیے بنائے جانے والے منصوبوں کی حمایت کریں۔ مالدار تاجروں اور
کاروباری افراد سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے، ٹیکسوں کی بروقت اور
منصفانہ ادائیگی اور دولت چھپانے کے اقدامات ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا
ہے۔چندماہ قبل امریکہ کے مالیاتی مرکز نیویارک سے شروع ہونے والی تحریک
آکوپائی وال سٹریٹ، یعنی وال سٹریٹ پر قبضہ کرلو نامی تحریک کا دائرہ
امریکہ کے بہت سے چھوٹے بڑے شہروں سمیت دنیا کے کئی ملکوں تک پھیل گیا تھا۔
اس تحریک سے وابستہ افراد امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے خلاف
آواز بلند کررہے ہیں اور ان کا کہناہے کہ اس کی ذمہ داری بڑے مالیاتی
اداروں اور حکومتی پالیسوں پر عائد ہوتی ہے۔ ماہرین یہ سوچ رہے ہیں امیر
اور غریب کے درمیان فرق کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟ مگر اس بارے میں پائے جانے
والے نظریات کے درمیان موجود فاصلے بڑھ رہے ہیں۔مظاہرین کا کہناہے کہ
مشکلات میں گھرے بینکوں کوٹیکس دہندگان کے پیسے سے بچالیا جاتا ہے مگر ان
غریب لوگوں کے گھروں پر جو مالی مشکلات کے باعث اپنی ماہانہ قسطیں ادا نہیں
کر سکتے ، بینک قبضہ کر لیتے ہیں۔تحریک کے سرگرم اراکین معاشی بحران کے لئے
بینکوں اور وال سٹریٹ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک کے
ایک فی صد امیر 99 فی صد آبادی کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاکر سب سے زیادہ
دولت کماتے ہیں اور اپنے سیاسی اثر ورسوخ کے ذریعے امیروں پر ٹیکس نہیں
لگنے دیتے۔قبضہ کرو تحریک ایک منصفانہ معاشرے کی خواہشمند تحریک تھی۔ جس کے
دنیا بھر میں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ لیکن امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے
پیٹر ویلی سن کہتے ہیں کہ کم ٹیکس اور قواعد و ضوابط معیشت کے لئے نقصان دہ
ہیں۔ ان کا کہناہے کہ حکومت کو نئے کاروبار شروع کرنے والوں کی راہ میں
رکاوٹیں نہیں کھڑی کرنی چاہیں، کیونکہ اپیل کمپنی کے اسٹیو جانز سمیت ایسی
بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ غریب ہی سخت محنت کرکے امیر بننے میں کامیاب
ہوئے۔ لوگوں کے راستے میں نہیں آنا چاہیے۔مگر واشنگٹن کے ایک تحقیقی ادارے
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایک اسکالر جان کیواناگ کا خیال ہے کہ جب
ملک میں بیروزگاری کی سطح اتنی بلند ہوتو غریب سے امیر بننے کے قصے خواب
لگتے ہیں۔ امریکی کانگرس کے بجٹ آفس کے اعدادوشمار کے مطابق پچھلی تین
دہائیوں میں آبادی کے ایک فی صد کی آمدن میں 275 فی صد اضافہ ہوا ہے
مگرانتہائی غربت میں زندگی گذارنے والی20صد آبادی کی آمدنی صرف 18 فی صد
بڑھی ہے۔آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق معاشرے کے
دس فی صد امیروں کی آمدنی غریب آبادی کی کل آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہے۔
دوسری جان دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے روزگار ہیں۔ جو دولت مندوں کے خلاف
احتجاج کرتے ہوئے جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔ |