فیصلہ آپ کے ہاتھ میں!

آپ بھی بہت بار اس تجربے ،مشاہدے ،اور ذہنی اذیت،کوفت سے گزرے ہوں گے ،گزر رہے ہوں گے،اور آئندہ بھی گزریں گے، کہ کسی نے آپ سے کوئی وعدہ کیا،کوئی کمٹمنٹ کی ،آپ نے اس پر بھروسہ کیا، اس کے اس وعدے پر اگے بہت سے کام کرنے کا پلان بنایا،اپنی بہت سے امیدوں کو زندہ رکھا۔اور عین وقت پر وہ شخص آپ کو دھوکا دے گیاآپ سے کیا ہووا عدہ پورا نہ کر سکااور اپ کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا،یہی نہیں بلکہ کہیں بار ایسا ہوتا ہوا دیکھا ہوگا کہ لوگو نوکریوں کی امیدیں لگا کر انسان کو بوڑھا کر دیتے ہیں،کسی نے آپ کے پیسے دینے ہوں تو وہ برسوں آپ سے جھوٹ بولتا رہے گا،یہ المیہ تو اپنی جگہ اس معاشرے کا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو دھوکا دینے میں پیش پیش ہیں۔اپنی کی ہوئی بات کبھی وقت پر پورا نہیں کرتے،دس منٹ بتا کے تو گھنٹوں غائب رہتے ہیں اس دوران دوسرے پر کیا گزرتی ہے ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا،مگر اصل دکھ اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب آپ اس آدمی کو دوست کو جاننے والے کو رشتے دار کو یہ کہہ کر کہ تم نے اپنا کیا ہوا وعدہ یا اپنی کمٹمنٹ،اورزبان پوری نہیں کی تم نے جھوٹ بولا ہے تم جھوٹے ہو تو پھر اس کے بعد والا جو ریکشن آپ کے سامنے آئے گا وہ افسوس ناک ہوگا وہ آدمی پھر تمام رشتے ناطے،دوستی تعلق،سب کچھ بھول کر آپ پر بر س پڑھے گا کہ تم نے مجھے جھوٹا بولا میں تو یہ سوچ کر آیا تھا ،میں تو یہ کرنے والا تھا ،میں تو بس ابھی ہی تمہیں یہ کہنے والا تھا مگر تم نے مجھے جھوٹا بول کر اپنی اوقات دیکھا دی۔ دنیا کے کسی بھی سنس رکھنے والے سے پوچھا جائے کہ ایسے شخص کو کیا کہا جائے جھوٹا نہ بولا جائے تو اور کیا القاب و خطاب دیا جائے،کیا یہ سچ نہیں،جب سچ ہے تو پھر اس پر ناراض ہونا یا پھر رشتے ناطے توڑنے کی کیا ضرورت ہے،اس کی کیا وجہ ہے یا ایسا کیوں ہوتا ہے ؟اگر ہم اپنے آپ کو سامنے رکھ کر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ہمت کریں تو شاید کہ سمجھ ا جائے۔یہ کسی دوسرے کی بات نہیں ، یہ ہم سب کی بات ہے آپ بھی ایسا کرتے ہیں ،ہم سب ایسا کرتے ہیں،اس معاشرے میں دو ہی وعدے پورے ہوتے ہیں ایک کسی کو نقصان پہنچانا ہو ،کسی کا راستہ روک کر اسے لوٹنا ہو،کسی کی چوری کرنی ہوتو یہ کام بر وقت اور اپنے کئے ہوئے وعدے پر کئے جاتے ہیں ،یا پھر کسی لڑکے نے لڑکی سے اور لڑکی نے لڑکے سے ملنا ہو تو وہ دنیا کی ساری مشکلات سارے مسائل،تمام دشواریاں رکاوٹیں عبور کر کے وہ ایک دوسرے سے ملے گے کیوں ؟اس لئے کہ یہ بھی اخلاقیات کے خلاف ہے ،اخلاقی کام ، جس سے معاشرے میں بہتری آئے جس سے برائی ختم ہو وہ کام کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا ۔اورا گر برائی کی نشاندہی کی بھی جائے تو اس کو ماننے کے لئے کوئی تیار نہیں ، کہتے ہیں کہ دوسرے کی انکھ میں تنکا بھی نظرا ٓتا ہے اور اپنی آنکھ کا شتر مرغ بھی نظر نہیں آتا،اسی سے ایک پیاری بات یاد آئی ایک دانشور برزگ نے ایک بڑے کاغذ کا ایک ٹکڑا لیااس پر ایک کالا نشان لگا کر دیوار کے ساتھ لگا دیااور وہاں کھڑا ہو گیا جو بھی وہاں سے گزرتا اسے پوچھتا کہ دیوار پر کیا لگا ہے سب یہی جواب دیتے کہ کاغذ پر داغ ہے،وہ دانشور بزرگ اس بات پر حیران تھا کہ ان کو دیوار پر اتنا بڑا سفید کاغذ نظر نہیں آتااور یہ کا لا نقطہ نظرآگیا۔یہ سچ ہے یہ حقیقت ہے کہ ہمیں جھوٹی تعریف کرنے ولااچھا لگتا ہے۔سچ بولنا اور سچ لکھنا اس معاشرے میں جرم ہی نہیں بلکہ نا قابل معافی جرم ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں پر چاپلوسی کرنے والے کو انعامات دیے جاتے ہیں،یہاں پرمعیار کی دھجیاں بکھیرنے والے کو سلام کیا جاتا ہے اور کوالٹی پر سمجھوطہ نہ کرنے والے کو نہ صرف دھکے دے کر بلکہ ذلیل و خوار کرنے کی تمام تر تراکیب اور حربے استعمال کیے جاتے ہیں، سچ چلتا تو کچھوے کی چال ہے مگر فتح اسی کی ہوتی ہے،ہماری سوسائٹی کا المیہ یہ ہے ،لوگوں کی شعوری آگائی کاگراف یہ ہے کہ جب بات کریں گے تو کتابی، قران و حادیث کے حوالے سے بات کریں گے اور جب عمل کی بات آئے گی سب کچھ بھول جائیں گے،،یہاں تک کہ ان کا اپنا ہی فلسفہ ہوتا ہے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا۔ہمارے ہاں ایسا کوئی حالہ تو نہیں جس سے سچ اور جھوٹ میں تفریق کی جائے ہاں یہاں پر طاقت کی بنیاد پر ،دولت شہرت کی بنیاد پر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کیا جاتا ہے ،ایک طرف ہم دن رات اس بحث میں ہوتے ہیں کہ برسوں گزرنے کے بعد بھی اس معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی،معاشرہ دن بدن بگڑتا جا رہا ہے،اور دوسری طرف ہم اس معاشرے کو بہتر بنانے والے تمام عوامل سے دور ہی نہیں بلکہ لاتعلق ہوتے ہیں۔کیا عمل کے بغیر معاشروں میں سدھار آسکتا ہے،کیا عمل کے بغیر یہاں پر کوئی تبدیلی آسکتی ہے،کیاحقیقت سے نظریں چرانے سے سچ چھپ سکتا ہے؟خرابی تو ہمارے اندر ہے یہ کسی علاقے ،یا مٹی میں نہیں ہوتی اس دھرتی کے باسی ہی اس کے پہچان ہوتے ہیں۔مگر افسوس کہ یہاں پر بات تو نسل،قوم،معاشرے،کی ،کی جاتی ہے مگر اس کی تعریف غلط کی جاتی ہے،ہم اگر نسل یا قوم کی بات کریں تو ہم کشمیری ہیں،ہماری پہچان کشمیر ہے،دنیا کے کسی بھی خطے میں چلے جائیں ہم کشمیری کے نام سے جاننے اور پہچانے جاتے ہیں تو پھر ہماری ڈیڈ انچ کی مسجد کا جھگڑا کس بات کا۔ہاں بہتری اجتماعی سوچ سے آسکتی ہے،بہتری سچ اور حقیقت کو تسلیم کرنے سے آسکتی ہے رنگ نسل ذات پات ،فرقہ واریت پر نفرتوں سے سوا کچھ نہیں حاصل ہوگا،اور نفرتیں فساد،اور دشمنی کو جنم دیتی ہے۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75049 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.