جی ہاں یہی ہماراپاکستان ۔ اب کیا کریں اسی پر گذارا کرنا
ہے کیونکہ اسکا آدھے سے زیادہ حصہ اﷲ کی نافرمانیوں کی وجہ سے کینسر زدہ
ہونے کی وجہ سے کٹ گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے انگریز اور ہندو کی غلامی سے ہمیں
آزمائشی طور پر برصغیر کا کچھ حصہ دیا ۔ اﷲ کی سنت ہے کہ اگر تم شکر کروگے
تو تمہیں اور دوں گا۔ اگر ہم نے پاکستان کے حصول پر عملا شکر خداوندی
اداکیا ہوتا تو آج دہلی پر پرچم اسلام لہرا ہوتا۔ اور پھر غزنی و قندھار سے
سلہٹ تک مسلمانوں کی حکومت ہوتی مگر فرمان الہٰی کا مفہوم ہے کہ ہم کسی قوم
سے نعمت نہیں چھینتے مگر وہ خود اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اس نعمت کو
زحمت میں تبدیل کردیتے ہیں۔ قارئین کرام! وہ کونسی ناشکری ہے جو ہم سے سرزد
ہوئی اور ہم قعر مذلت میں غوطے کھارہے ہیں۔ تو میں کیا بتاؤں پاکستانی کے
کسی شعبے میں جائیں۔ رشوت اور سفارش، اقربا پروری احباب نوازی اور ہوس مال
وزر میں افراد ہوں یا جماعت ہو، ہرطبقہ مردار نوچنے میں مشغول ہے۔ کہتے ہیں
شراب حرام ہے، ام الخبائث ہے، سود حرام ہے اور رشوت کا لین دین کرنے والے
تو بحکم رسول اﷲ ﷺ جہنمی ہیں۔ سود پر بیرونی قرضے لے کر قوم کو ذلیل کیا
جارہا ہے۔ نسلیں قرض ہی اتارتی رہیں گی۔ آزادی سے قبل مسلمان ہندو کے معاشی
تشدد کا اس حد تک شکار تھے کہ کسان کا غلہ کھلیاں سے بنیا لے جاتا اور
بیچارہ مسلمان کسان اور اسکے بیوی بچے آہ سرد کے سوا کچھ نہ کہ سکتے۔ مگر
پھر بھی کسان آزاد نہ ہوتا اور یہ عمل غاصبانہ جاری رہتا۔ ہندو سے ادھار لے
کر روٹی کھاتے اور پھر زمین و جائیداد و مکانات بھی ہندو قرقی کرالیتا۔
موجودہ صورت حال اس سے مختلف نہیں۔ قرضوں سے کھربوں ڈالر تو بڑے لوگ لے
جاتے ہیں۔آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی میں عوام کو پچاس ہزار کا قرضہ اونٹ
کے منہ میں زیرہ دیدیا۔ خیر یہ باتیں کوئی نئی نہیں۔ پاکستان کے حصول کے
لیئے جد وجہد کرنیوالے اور جانی مالی قربانیاں دینے والوں کا ایجنڈا یہ تھا
کہ پاکستان جنت ارضی ہوگا جہاں اﷲ اور سول ﷺ کے نظام کا نفاذ ہوگا اور ہمیں
اپنے حقوق ملیں گے جن سے انگریز اور ہندو نے ہمیں محروم رکھا۔ وہاں ہندو
اور انگریز دو استحصالی قوتیں تھیں تو یہاں مسلمان کے روپ میں ان سے بڑھ کر
غاصبوں سے پالا پڑا تو نتیجہ یہ نکلا کہ مرض لاعلاج ہوگیا اور دوا کا
تولوگو ں نے سوچا مگر یہ تو بے بس طبقہ تھا۔ابھی تک قوم کی حالت چلتے پھرتے
مردوں کی سی ہے کیونکہ یہ اپنے حقوق حاصل کرنے اور پاکستان کی قدر کرنے کے
قابل نہیں۔ حالات سدھرنے کی بجائے تیزی سے خراب ہورہے ہیں۔ آزادی رائے کا
حق اسلام نے دیا، برائیوں اور بدکرداریوں کی خبروں کو اﷲ کے حکم (پارہ
نمبر6 )کی ابتداء کے مطابق اﷲ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے البتہ مظلوم کو حق ہے
کہ وہ اپنے اوپر ظلم کا ذکرحصول انصاف کے لیئے کرے۔قرآن کریم میں حکم ربانی
ہے بلا تحقیق خبروں کی تشہیر نہ کرو۔ گویا کہ میڈیا کے لیئے اﷲ اور رسول ﷺ
نے حدود مقرر فرمادیں۔ مسلمانوں نے آج تک اپنے انتظامی اور دفاعی محکموں کے
خلاف زہر افشانی نہیں کی ۔ افراد فرشتے نہیں انسان ہوتے ہیں۔ ظاہری عہد
رسالت مآب ﷺ میں بے شمار واقعات پیش آئے کہ اختلافات ہوئے مگر قومی مفاد کے
پیش نظرانکی تشہیر نہیں کی۔ لیکن آج نشریاتی اداروں میں غیروں کے آلہ کار
کے طور پر ملک اور قوم کے مفاد ات کو دیدہ دانستہ داؤ پر لگادیا۔بدقسمتی سے
پاکستان کے صدقے امیر ترین سرمایہ دار بننے والے جنگ کی مالک میر فیملی نے
بھارت ، امریکہ اور دیگر قوتوں کے ایما پر پاکستان کے اسلامی کلچر کو
بگاڑنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ بات یہیں تک نہیں پاکستان کا وہ دفاعی
ادارہ جو اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستان کے استحکام اور دشمنوں کی
سازشوں سے دفاعی حصار ہے۔، اسکے خلاف حامد میر کے حادثے کا بہانہ بناکر مہم
جوئی کی گئی۔ آٹھ گھنٹے تک اس اہم ادارے کے خلاف جیو ٹی وی پرزہر افشانی کی
گئی ۔
حکومت یعنی وزیراعظم اور صدر پاکستان کا فرض تھا کہ فوری طور پر اس نوٹس لے
کر بلاتحقیق ایک حساس اور اہم قومی ادارے کے خلاف ہرزہ سرائی بند کراتے
مگراس کے بر عکس میاں نواز شریف نے حامد میر کی عیادت کرکے انکے ساتھ اپنی
ہم آہنگی کا ثبوت دیا۔ جیو کی غیرذمہ دارانہ تشہیر کے خلاف ملک گیر احتجاج
شروع ہوا اور جاری ہے مگر میاں برادران نے دفاعی ادارے بارے زہر افشانی
پرجیو کی آج تک مذمت نہیں کی۔ اﷲ کی طرف سے ملک اور قوم دشمن کا پردہ چاک
ہوگیا کہ ایک بچے کو اپنے پروگرام میں لاکر بے حیائی کا مظاہرہ یوں کیا کہ
لڑکے نے کہا کہ مجھے اپنی ٹیچر سے عشق ہوگیا ہے۔ اسی طرح کی حرکات کے بعد
میر فیملی جنگ جیونے کفر و طغیان میں اس قدر دیدہ دلیری کی کہ ایمان کی
اساس خلیفۃ المسلمین امیر المؤمنین، فاتح خیبر داماد رسول سیدنا حضرت علی
مرتضیٰ کرم اﷲ وجھہ اور سیدۃ النساء فی الجنۃ مادر محترم سیدنا حسنین
کریمین رضی اﷲ عنہما اور دختر پاک رسول پاک ﷺ کی شان میں لکھے گئے قصیدہ کو
ایک فاحشہ اداکارہ اور اداکار کی شادی کی فحش محفل میں پڑھ کر انتہائی
توہین اسلام کی ۔ اس پر پورا ملک غم و اندوہ میں سراپا احتجاج ہے مگر وزیر
اعظم کی طرف سے ایک لفظ بھی مذمت کا منظر عام پر نہ آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ
عمران خان صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ درست ہے۔ پاکستانی میڈیا سارا داغدار
ہے کوئی کم کوئی زیادہ لیکن پیسے کی دوڑ اور اسلام دشمن عناصر کے تیارکردہ
اشتہارات جن کے مقاصد پروڈکٹ کی افادیت کم فحاشی کی تشہیر زیادہ ہوتی ہے۔
میڈیا والوں کو رقم بھی زیادہ ملتی ہے ۔ پھر ہوا کے رخ پر چلنا بھی ضروری
سمجھتے ہوئے ٹی وی چینل شائد ہی کوئی ایسا ہو کہ جس کی اینکر پرسن ننگے سر
اور پوری سج دھج سے نہ آتی ہو۔ لیکن جیو نے تو عمدا پاکستان میں لادینیت
پھیلانے اور نئی نسل کو قرآن و سنت سے برگشتہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے
استحکام اور بقا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔موجودہ صورت حال اور
حکومت کے وزیر اور مشیر کا میر شکیل الرحمن سے طویل ملاقات اور بھی دوبئی
میں اس امر کا مظہر ہیں کہ حکومت میر شکیل کا مضبوط ٹیکاہے۔ علما کرام کا
فتویٰ آچکا ہے اور صحابہ کرام و اہلبیت اطہار کی توہین ناقابل معافی جرم ہے۔
سزا کا تعین عدالت کرے۔ حکومت میر شکیل اور جیو کے ذمہ داران کو تحفظ فراہم
کرنے کی بجائے جنگ و جیو کے تمام نشریاتی اداروں کو بند کردے۔ میڈیا کا فرض
ہے کہ وہ اپنے مذہب ، اخلاق اور نظریہ پاکستان کی روشنی میں کام کرے ۔ جو
نقب لگانے کی کوشش کرے اسکے خلاف سخت کاروائی کیجائے۔ |