عورت قدیم زمانہ سے ہی ایک معمہ
بنی رہی ہے ،تمام مذاہب نے عورتوں کے سلسلہ میں رائے زنی کی ہے اور عورتوں
کو بے وقوف بنانے کی بھرپور کوششیں کی ہیں ،صرف اسلام ہی ایسا واحد مذہب ہے
،جس نے عورتوں کو ہر چیز میں مکمل حق دیااور اسے قیمتی سرمایہ قرار دیا ،اسے
مر دکے لیے دلی وابستگی کا ذریعہ بنایا،نیز اس کی کفالت کی مکمل ذمہ داری
مردوں پر ڈالی ،بچپن سے شادی تک والد کے ذمہ ،شادی کے بعد شوہر کے ذمہ اور
شوہر کے بعد اولاد کے ذمہ غرض اسلام نے عورت کو کسی بھی مقام پر بے سہارا
نہیں چھوڑا،بلکہ مکمل طورپر اس کی حفاظت کی البتہ اس دور کے نام نہاد
محققین او رترقی کے دل دادہ حضرات آزادی نسواں کا نعرہ لگا کر عورتوں کو بے
وقوف بنانے اور دھوکہ دہی کرکے پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں
،اسلام کے سلسلہ میں پروپیگنڈے پھیلا رہے ہیں کہ ’’اسلام عورتوں کو قید
وبند کی زندگی جینے پر مجبور کرتا ہے ،تعلیم وتمدن سے کوسوں دور کرتا ہے
اور ترقی سے روکتا ہے ‘‘،حالاں کہ اگر انصاف کے ساتھ تمام مذاہب کا مطالعہ
کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ تمام مذاہب کا
عورتوں کے سلسلہ میں مساوات کا دعوی محض فرضی ہے، ان کے مذہب میں فقط
رسوائی ہے ،ان کے یہاں عورت کی حیثیت صرف اور صرف ایک شو پیس اور خواہش
پوری کرنے کی چیز تک ہے ،آئیے مختلف مذاہب کا سرسری جائز ہ لیتے ہیں کہ
انہوں نے عورت کے ساتھ کیا رویہ اپنایا ہے ،سب سے پہلے عیسائیت کا جائز ہ
لیتے ہیں ،ملت عیسائی کا یہ فیصلہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں ناپاک ہیں ،بلکہ
گناہ دونوں کے ساتھ وراثتہ منتقل ہوتا چلا آرہاہے ،خصوصیت سے عورت کے
ساتھ۔عورت کے متعلق کتاب مقدس میں موجود ہے کہ’’عورت موت سے زیادہ تلخ
ہے،جوکوئی خدا کا پیارا ہے وہ اپنے آپ کو عورت سے بچائے گاہزار آدمیوں میں
، میں نے ایک کو خدا کا پیارا پایا ہے؛مگر تمام عالم میں ایک عورت بھی ایسی
نہیں پائی جو خداکی پیاری ہو‘‘،گویا عورت ایک ایسی گھناؤنی اور ناقابل
برداشت چیز ہے ،جس سے ملنا جلنا اور اس کے ساتھ زندگی گزارنا کسی بھی حال
میں روا نہیں ،کیوں کہ خدا کاپیار اسے حاصل نہیں او رجسے خدا کا پیار محبوب
ہوگا وہ اس سے کنارہ کش رہنے ہی میں عافیت سمجھے گا ،یہ تو تھا عورت کا
مقام عیسائیت کی نظر میں اور یہود اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟تو ملت یہود
کی مقدس کتابوں کا عورت کے متعلق یہ فیصلہ ہے کہ کون ہے جو ناپاک سے پاک
نکالے؟کوئی نہیں ،یعنی ملت یہود کی نظر میں بھی عورت ایک ناقابل اعتنا چیز
ہے ؛اس لیے کہ انسان صرف عورت کی ذات سے تباہ و برباد ہو تا ہے ،کیوں کہ
مقدس کتاب کی تصریح موجود ہے کہ ’’انسان صرف اس وجہ سے پاک نہیں ہو سکتا ،کہ
وہ عورت سے پیدا ہوا ہے اور عورت ہمہ تن ناپاک ہے اور ناپاک سے پاک نہیں
نکل سکتا ‘‘،لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک وہ ذات جو اپنے بطن سے جنم دے کر
انسان کی زندگی پرہمیشہ کے لیے ناپاکی کا دھبہ لگائے وہ ناقابل معافی
ہے،نیز عورت ملت ہنود کی نظر میں ہندو قانون کا عورت کے متعلق یہ فیصلہ ہے
کہ تقدیر ،طوفان ،موت ،جہنم ،زہر ،زہریلے سانپ ان میں سے کوئی چیز اس قدر
خراب نہیں جتنی عورت ہے ،گویا ملت ہنود کا فیصلہ سب سے زیادہ سخت ہو ا کہ
دنیا کی بد ترین اشیا ء بھی عورت کی بدتری کا مقابلہ نہیں کرسکتیں اور دنیا
کی تما م مہلک اشیا ء عورت کی ہلاکت کے سامنے ہیچ ہیں؛اس لیے اجتناب ہر ِذی
ہوش کے لیے از حد ضروری ہے ،کیوں کہ تقاضائے عافیت یہی ہے،مشرکین مکہ کا
سلو ک عورت کے ساتھ ان سب سے بہیمانہ تھا ،وہ عورت کے و جود کو بھی برداشت
کرنے پر تیار نہ تھے ،چنانچہ جب کسی گھر میں بچی پیدا ہوتی تو ماں کی فطری
محبت و رکاوٹ کے باوجود باپ خود اپنے ہاتھوں سے اسے زندہ درگورکر دیتا اور
اگر اکا دکا اتفاق سے بچ جاتی تو اس کی ز ندگی کو جیتے جی جہنم بنا دیا
جاتا اور ان کے اپنے اوپر حقوق سمجھنا تو درکنار ان سے بات کرنا بھی گوارا
نہ تھا ،چنانچہ عین ایسے وقت میں جب عورت اندھیرے کی اتھاہ گہرائیوں میں
دھکیلی جا رہی تھی اسلام نے آکر اسے تحفظ دیا ،اس کے حقوق کو بیان کیا اور
جو لوگ اس کو حقیر سمجھتے تھے ان سے کہہ دیا:انا خلقنا کم من ذکر و انثی و
جعلنا کم شعوبا و قبائل لتعارفو ا ان اکرمکم عنداﷲ اتقاکم (کہ اﷲ کے نزدیک
پسندیدوہی ہے جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو )اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ مرد
باعتبار خلقت اس پر فخر کرے کیوں کہ فخر کی بات تو تقوی وپر ہیز گاری ہے ،اس
سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے عورت کو فطری آزادی کا حق دیا اور سکون وچین
عطا کیا اور د و دائرے بناکر کہا کہ ایک میں مرد رہے اور دوسرے میں عورت
ایسے دائرے جن میں رہنے سے دونوں کو ابدی سکون میسر ہو اور ان سے تجاوز
کرنے میں دونوں کی تباہی و بربادی ہو ،چنا نچہ عورت کی زندگی ایک مرتبہ پھر
سنبھل گئی اور دنیا نے جاناکہ عورت بھی خالق عالم کی تخلیق کا ایک بہترین
نمونہ ہے ،اس کے بھی کچھ حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا ضروری ہے ،مگر اس دشمن کو
جو اسے حقیر سے حقیر تر دیکھنے کا خوہشمند ہو کیسے گوارا ہوسکتا تھا؟چنانچہ
آج پھر عورت کی زندگی اور اس کی ذات ایک معمہ بنی ہوئی ہے ،اس کوسکون و
راحت پہنچانے والے نظام اسلام کا مذاق اڑانے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے ؛مگر
افسوس کامقام یہ ہے کہ عورت خود اپنے ہاتھوں فریب کھا رہی ہے ،وہ اپنے دشمن
کونہیں پہچان پا رہی ہے ،اسے دوست سمجھ کر اس کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے ،اور
اپنے وجو دکو برابر خطرات میں گھیرتی جار ہی ہے ،آج بھی عورتوں کے پاس وقت
ہے کہ وہ لوگوں کی افواہوں اور پرو پیگنڈوں پر توجہ نہ دیں ؛بلکہ انصاف کے
ساتھ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں ،خود ان کے سامنے رازہائے سربستہ کھل
جائیں گے اور اسلام کے تئیں تمام غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جائے گا اور دامن
اسلام کے آغوش میں آکر اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگیں گی،آج ہزاروں مغربی و
مشرقی عورتو ں کی مثالیں اخبارات و رسائل میں موجود ہیں جو اسلام کے نظام
عفت و عصمت سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئی ہیں ، اﷲ تعالیٰ تما
م عورتو ں کو عقل سلیم عطا فرمائے اور انہیں سنجیدگی کے ساتھ اسلامی
تعلیمات کا مطالعہ کرنے کی تو فیق دے (آمین )
|