فقط مسلمان پیدا ہونا کافی نہیں

میں مسلمان ہوں کیوں کہ میرے والدین مسلمان تھے وہ مسلمان تھے کیونکہ ان کے والدین مسلمان تھے
کیا فقط مسلمان پیدا ہونا کافی ہے؟کیا ہر صبح اپنے دفتر پہنچتے ساتھ تھوڑی دیر کے لیے قرآن کو سن لینا اور بعد میں بہودہ چینلز کو دیکھنے لگ جانا مسلمانیت ہے؟یقینن ہر گز نہی۔آج ہم تباہ ہو رہے ہیں،ہم اپنے آپ کو بڑے فخر سے مسلمان کہتے ہیں اور ہمیں مسلمان ہونے پر فخر بھی ہونا چاہیے ۔آج تعلیمی اداروں میں کلچر کے نام پر جو تماشے ہو رہے ہیں یہ کونسی مسلمانیت ہے اداروں میں کئی سوسائٹیاں ہوتی ہیں جو کالج کے اندر مختلف تقریبات کرواتی ہیں جن میں لیکچرز،میوزکل شوز،ڈانس پارٹیاں اور بہت کچھ شامل ہے۔ہمارے ہاں والدن بچوں کو کالجوں میں داخل کروانے کے بعد یہ بھول جاتے ہیں کے جس کالج میں انھوں نے اپنے بیٹی یا بیٹے کو داخل کروایا ہے اس کا ماحول کیسا ہے۔کیا ادھر بچیوں کے لیے کوئی نماز پڑھنے کی جگہ موجود ہے؟اور کیا ادھر لڑکیوں کا باتھ روم لڑکوں کے باتھ روم سے مناسب دوری پر ہے؟

وہ بیٹی جو گھر پر انکے سامنے باپردہ ہوتی ہے کیا کالج میں بھی باپردہ رہتی ہے؟

کیا کلاس رومز میں لڑکے اور لڑکیوں کے بیٹھنے کی جگہ الگ الگ مختص کی گئی ہے؟اور کیا ہفتے کے جن دنوں انکی بچی جن اوقات پے گھر آتی ہے ہمیشہ انھی اوقات پے گھر آتی ہے اور اگر وہ لیٹ ہوتی ہے تو وجہ جانی جاتی ہے؟میں نہیں سمجھتا کے زیادہ تر لوگ اپنی بچیوں سے یہ سوال پوچھتے ہوں گے ہاں چند ماں باپ یہ ضرور پتہ رکھتے ہوں گے کے انکے بچے کب آتے ہیں ، ادھر کیا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔میں نے کئی ماں باپ کو دیکھا ہے کے وہ اپنے بچوں کو کالج چھوڑنے کے لیے آتے ہیں ابھی وہ واپسی کے لیے مڑتے نہی کے بٹیاں سر سے دوپڑا اتار دیتی ہے۔ کیا اﷲتعالی ان کی یہ حرکت نہی دیکھ رہا ہوتا؟ بلکل دیکھ رہا ہوتا ہے مگر انسان تو گناہ کا پتلہ ہے۔کیا یہ مسلمانیت ہے کے کالجوں میں انڈین طرض کے فیشن شوز کروائے جاہیں اور وہاں ڈانس ،بے حیائی اور بے شرمی عام ہو ں؟ نہیں یہ اسلام کی تعلیمات بلکل بھی نہیں۔
لیٹ نائٹ پارٹیاں ،ناچ گانا ،شراب وکباب کی محفلیں اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دن بدن بڑھتی چلی جا رہیں ہیں۔ ہمارے چھوڑے بچے سکولوں میں جاتے ہیں آپ نے یہ دیکھاہو گاکے تقریب تقسیم انعامات یا فینسی ڈریس شو کے نام پر کس طرح ننھے ننھے بچوں کو بھارتی گانوں پر ناچنے پر مجبور کیا جاتا ہے یقینن یہ تباہی ہے۔

نوجوان لڑکے لڑکیوں میں سیگرٹ تو عام تھی ہی مگر اب چرس اور ہیرون بھی عام پی جانے لگی ہے۔
بھارتی فلموں کی طرز پے نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اپنا حلیہ بدل لیتے ہیں جو کے انتہائی نامناسب ہے۔ ٹائٹ جینز نا صرف لڑکوں میں عام ہے بلکہ لڑکیوں میں بھی عام ہے۔کاش کے مجھ سمیت ہم سب کے حلیے شریعت کے مطابق ہو جائیں،نماز ہمارا اوڑھنا اور بچھونا ہو جائے۔آپ نہ جاہیں سنی یا شیعہ کی مسجد نا پڑھیں اس امام کے پیچھے نماز جو آپ کو دوسرے فرقوں سے نفرت کرنے کی ترغیب دیتا ہے پر خدارا نماز تو پڑھیں ۔آپ اپنی مرضی کی مسجد جاہیں ،ہاتھ کھول کر پڑھیں یا بند کر کے آپ کی مرضی ہے۔قرآن کھلی کتاب ہے اسے پڑھیں انبیا ؑ کی سیرت کو پڑھیں تو مولویوں سے خود با خود جان چھوڑ جائے گی۔ ٹی وی ڈراموں میں بے حیائی عام ہے ایک وقت تھا جب پی ٹی وی ہوا کرتا تھا باپردہ خواتین رول کیا کرتی تھی مگر اب پرائیوٹ چینلز کا کیا رونا رویں سرکاری چینل ہی دیکھنے کے قابل نہی رہا۔اگر میرے جیسا کوئی کالم لکھ لیے تو لوگ اسے مولوی مولوی کہنے لگ جاتے ہیں۔

اس ملک میں اسلام کو صرف استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کے نام پر ہر وہ کام کیا جا رہا ہے جو کے غیر اسلامی ہے۔یہاں لمبی لمبی دھاڑیاں ہونے کے باوجود ملاوٹ کی جاتی ہے ۔ہم حلیے دیکھ کر فیصلے کرنے لگ گئے ہیں جو کے سراسر غلط ہے۔بقول شاعر۔۔
دو چار نہی مجھ کو فقت ایک دیکھا دو
وہ شخص جو اندر سے بھی باہر کی طرح ہو

معاشرتی برائیاں عروج پر ہیں میں نے وہ لوگ بھی دیکھے ہیں جو پانچ وقت رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں مگر حقوق العباد میں انتہائی بخل کا مظاہرہ کرتے ہیں ہم کاروبار میں جھوٹ بولتے ہیں ،ناپ تول میں کمی کرتے ہیں اور کو ستے ہیں حکمرانوں کو جو کے ہم میں سے ہی ہیں ۔خدارا نام کے مسلمان نا رہیں بلکہ کام کے مسلمان بن جاہیں فقط مسلمان پیدا ہونا کافی نہی مسلمان بن کر دیکھانا ہو گا۔ پھر ہر کام میں برکت بھی آئے گی اور رزق میں کشادگی بھی ہو گی۔۔
Uzair Altaf
About the Author: Uzair Altaf Read More Articles by Uzair Altaf: 26 Articles with 25793 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.