رات کے گیارہ بجے تھے جب کراچی
پریس کلب کے باہر ٹی وی چینل کی کئی او بی وین کھڑی تھیں۔ ٹی وی چینل کے
رپورٹرز اور نوجوانوں کا ایک ہجوم تھا۔ کیمروں کی روشنی میں ایک نوجوان
جذباتی انداز میں کہہ رہا تھا کہ امریکی اسکالر کے رویے نے اس کو ایسا کرنے
پر مجبور کردیا۔ محمد حسین کا کہنا تھا کہ فلسطین میں اسرائیلی مظالم کی
حمایت اور تضحیک آمیز روئیے نے اسے امریکی اسکالر کو جوتا مارنے پر مجبور
کیا۔ جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے طالبعلم محمد حسین پرجوش
انداز میں کہہ رہا تھا کہ امریکی تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف
ڈیموکریسییز کے سربراہ کلفورڈیمے نے مسلمانوں کو انتہا پسند اور ایران کے
اسلامی انقلاب کو بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کی جڑ قرار دیا تھا اور اس
کے سوالوں پر کلفورڈ نے تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا جس کے جواب میں اس نے
کلفورڈ کو جوتا دے مارا۔ محمد حسین نے جامعہ کراچی کی انتظامیہ سے اپیل کی
ہے کہ اس کے اقدام کو محب وطن پاکستانی کے امریکیوں کیخلاف جذبات سمجھیں
اور اسے مزید تعلیم حاصل کرنے دیں۔ محمد حسین نے کہا ہے کہ اسے اپنی جان کا
خطرہ ہے کیونکہ اس واقعہ کے بعد کچھ عناصر اسے نشانہ بنا سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں اب جوتے خطرناک ہتھیار کا روپ دھار گئے ہیں۔ عراقی صحافی
المتظر الزیدی نے بش پر کیا جوتے پھینکے، دنیا بھر میں لوگوں کو اپنے غم
وغصے اور جذبات کے اظہار کا موقع مل گیا ہے۔ چند دن پہلے ایک ترک صحافی نے
آئی ایم ایف کے ایک ڈائریکٹر پر جوتے دے مارے تھے۔ استنبول کے دورہ پر آئے
ہوئے آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کے ساتھ جو یونیورسٹی کے کانفرنس ہال میں
طلباء سے خطاب کر رہے تھے۔ اس دوران ایک طالبعلم صحافی نے اپنا سفید جوتا
آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کو دے مارا۔ بالکل اسی طرح جس طرح فلسطین کے بچے
اور نوجواں اپنی غلیل سے اسرئیلی ٹینکوں پر پتھر مارتے ہیں۔ کشمیر کے
نوجواں بھارتیوں کے خلاف پتھر مار کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی
طرح دنیا بھر میں امریکیوں سے نفرت کے اظہار کے لئے جوتوں کا انتخاب کیا
گیا ہے۔ اب امریکیوں کو ہر جگہ جوتے پڑنا شروع ہوگئے ہیں تبھی تو انہوں نے
افغانستان سے امریکی جنگ پاکستان کی طرف منقتل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حقیقت
یہ ہے کہ پاکستان کے عوام جارح، ظالم اور دہشت گرد امریکا کے چہرے کو دیکھ
چکے ہیں اور ان کو ہرگز امریکا سے کوئی محبت نہیں۔ وہ امریکہ سے ملنے والی
کسی امداد کو بھی دھوکہ کا جال سمجھتے ہیں، غریب ملکوں کو غلام بنانے اور
وسائل پر قبضے کی امریکی جنگ کے خلاف جس نفرت کا آغاز بغداد سے ہوا تھا آج
اس کا اظہار ہر جگہ ہورہا ہے۔ اس جوتا مار مہم میں اعزاز پانے والے بڑے لوگ
ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ، اپوزیشن لیڈر ایل کے ایڈوانی اور وزیر
داخلہ چدم برم بھی جوتے کھانے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ امریکی
دانشوروں نے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف ایک نام نہاد پروپیگنڈہ کیا ہے
اور جامعہ کراچی میں جوتے کھانے والے کلیفورڈ ڈی بھی امریکی دانشور ہیں۔
کلیفورڈ ڈی امریکی تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسی کے صدر ہیں۔
ڈیلی ٹیلی گراف نے موصوف کو امریکا کے سو بااثر کنزرویٹیو میں شمار کیا ہے۔
جس کا مطلب ہے کہ امریکا کی موجودہ پالیسیوں کی تشکیل میں اس کا بھی حصہ ہے۔
اس کے علاوہ ان کو ۲۰۰۶ میں عراق اسٹڈی گروپ جس کو کانگریس فنڈ کرتا ہے کا
ایڈوائزر تعینات ہوا تھا۔ پاکستان کے نوجواں آج کل شعلہ جوالہ بنے ہوئے ہیں۔
امریکہ کے خلاف نفرت کا لاوا ابل رہا ہے۔ جامعہ کراچی میں ایک طالب علم کا
جوتا جارحیت کے منہ پر مزاحمت اور آزادی پسندی کا جوتا ہے۔ یہ دہشت گردی کے
منہ پر امن پسندی کی جوتا بازی کا آغاز ہے۔ |