ڈرتے ڈرتے اب ڈر بھی ڈرنے لگا ہے

بچپن میں اکثر اماں سے کسی ایسی چیز کی خواہش کرتے جو ان کی دسترس میں نہ ہوتی یا کوئی ضد یا کھانے سے انکار پر ٹال مٹول کرتے تو اماں اکثر یہ کہہ کر ڈراتی تھیں کہ جلدی سے سوجاؤ،یا جلدی سے کھالو،یا رونا بند کرو فلاں فقیر یا بڑی دانتوں والا جن آکر ابھی تمہیں لے جائے گا ،اور ہم ڈر کے مارے ناپسند آنے والی بھنڈی،پالک بھی کھالیتے یا ڈرتے ڈرتے چپ کرجاتے یا پھر خاموشی سے بستر پر ڈھیر ہوجاتے ۔کبھی کبھارتو اماں کی باتوں کا اتنا اثر ہوتا کہ نیند میں کوئی ڈراؤنا چہرہ یا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتے اوررونا پیٹنا شروع کردیتے، پھر اماں اپنی آغوش میں لیکر یہ کہہ کر سلادیتی کہ بیٹا کچھ نہیں سوجا۔۔ جن ون کچھ نہیں ہوتا خواب خواب ہوتے ہیں حقیقت نہیں ۔۔اماں کی باتیں اس وقت تو سمجھ نہیں آتی تھی کہ اماں خود ہی ڈراتی ہیں اور پھر خود ہی کہتی ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا بہادر بچے نہیں ڈرتے لیکن اب جب ہوش سنبھالا ہے تب ہی یہ جانا ہے کہ اماں ہمیں کیوں ڈراتی تھی اماں کا تو فقط مقصد یہ تھا کہ ہم ان کا کہنا مانیں یا کھانا کھا کر صحت مند رہیں اور وہ ہمیں دیکھ کر خوش ۔۔۔

بچپن گذارنے کے بعد اب جب بڑے ہوئے ہیں تب بھی اماں ہمیں سڑک یا فٹ پاتھ پر بیٹھنے سے منع کرتی ہیں ،،کہیں فائرنگ ہوجائے یا ٹی وی پر کوئی تشدد والی خبر آجائے تو اماں ہمیں باہر جانے سے روک دیتی ہیں ۔۔اماں کی ان باتوں سے جہاں ممتا کے رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں تو وہیں ایک ڈر کا بھی احساس ہوتا ہے کہ اماں ہمیں خود سے دور نہیں دیکھنا چاہتیں۔

پر رونق اور روشنیوں کا شہر سمجھے جانے والے کراچی شہرمیں ہر گھر کی ماں شاید اپنے بچوں کا اسی طرح خیال رکھتی ہونگی کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ یہ شہر اپنی عمر اور آبادی کے ساتھ ساتھ اتنا بوڑھا اور بے بس ہوچکا ہے کہ اب اس میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ کسی ماں کی طرح اپنے بچے کا خیال ہر سڑک ،ہرگلی اور ہراک موڑ پر رک سکے ،شاید اب یہ شہرواقعی اتنا بے ضمیر ہوچکا ہے کہ اس کی زمین خود یہ چاہتی ہے کہ روز کسی ماں کے لال کا خون اس پر گرے اور وہ اس سے لطف اندوز ہو۔۔شاید یہ شہر اب اتنا لالچی ہوگیا ہے کہ اب یہ خود چاہنے لگا ہے کہ یہاں بھائی اپنے بھائی کو اس لئے جان سے ماردے کہ وہ کہیں جائیداد پر میرے قبضہ نہ کرلے ۔۔شاید یہ شہر اب فرقہ پرست اور نسلی تعصب رکھنے لگا ہے کہ اسے کسی کی اب کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔شاید یہ شہر اب مرچکا ہے یا شاید اب اس شہرکو رونقوں اور روشنیوں سے زیادہ سناٹوں اور اندھیروں کی عادت سی ہوگئی ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ کسی گھر میں کبھی اجالا ہو۔
اس تشدد آلود شہرکی عادات اور حرکات کی بدولت بچپن سےلڑکپن،لڑکپن سے نوجوانی اور نوجوانی سے جوانی میں قدم رکھنے کے بعد ذمہ داریوں کا بوجھ کندھوں پر جتنا بڑھتا جارہا ہے اتنا ہی اب وہ ڈر بھی گھٹتا جارہا ہے جو بچپن میں جن بھوتوں سے لگا رہتا تھا ،اس بے بس شہر میں روز روز کے حالات اور پرتشدد واقعات نے اتنا ڈھیٹ بنادیا ہے کہ جیسے ڈرتے ڈرتے اب اندر کا ڈربھی خود سے ڈرنے لگا ہے۔۔۔
Amjad Buledi Baloch
About the Author: Amjad Buledi Baloch Read More Articles by Amjad Buledi Baloch: 13 Articles with 11472 views i am journalist.. View More