مسلمانوں کی ازدواجی زندگی اور مغربی معاشرہ!
(Mir Afsar Aman, Karachi)
صاحبو!قرآن شریف کے مطابق اﷲ نے
آدم ؑ کو مٹی سے پیدا کیا پھر اسی کی جنس سے حوا ؑ کو پیدا کیا پھر دنیا
میں ان کے ملاپ سے انسانی نسل پھیلی۔ اس ملاپ کو عرف عام میں شادی کہتے ہیں
یہ ایک مرد اور عورت کے درمیان عمرانی معاہدہ ہے اگر اس کے مطابق زوجین
چلیں تو زندگی کی گاڑی صحیح صحیح چلتی رہے گی اور اگر اس سے انحراف کیا
جائے گا تو زوجیں کے درمیان تنازہ پیدا ہو گا اسلام نے زوجیں کے درمیان
شادی سے لیکر اختلاف تک کا نظام واضح کر دیا ہے اگر ایک دوسرے کے درمیان
اختلاف پر اس پر عمل کیا جائے تو اختلافات کو کم از کم کیا جا سکتا ہے اور
مثالی اسلامی معاشرے کا عمل ممکن ہو سکتا ہے جو آجکل بیرونی شیطانی تہذیب
کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ بیرونی امداد پر چلنے والی
حکومتیں ہیں جو اسلامی معاشرے کے بگاڑ کے لیے استعمال ہور رہیں ہیں۔ قرآن
شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہــ ’’تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں
بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو‘‘(روم:۲۱)عورت کو مرد کے لیے قرآن
میں میں کھیتی سے تشبہہ دی گئی ہے ’’ تمہاری بیویاں تمہاری کھتیاں ہیں جس
طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤ‘‘(البقرۃ:۲۲۳) ہم دیکھتے ہیں کسان کھیتی کو کس
طرح تیار کرتا ہے ۔اس میں بیج ڈالتا ہے پھر اس کو پانی دیتا ہے۔ فصل کی
دیکھ بھال کرتا ہے اور اس میں سے بہتر سے بہتر فصل کی خواہش رکھتا ہے۔اسی
طرح مرد کو عورت کا خیال رکھنے کا کہا گیا ہے اس کے کیے ضرورت کی اشیا مہیا
کرنے کا حکم ہے شادی کے وقت حق مہر مقرر کرنے کاکہا گیا ہے پھر ازدواجی
تعلقات قائم کرتے ہیں پھر اﷲ سے ایک خوب سورت اور صحیح حالت میں اولاد کی
تمنا ہوتی ہے نہ کہ عورت سے صرف جنس ہی ضرورت ہے جیسا کہ مغرب میں شیطانی
تہذیب میں رواج ہے۔ شادی سے پہلے مہر مقرر کر دینا ضروری ہے حدیث میں
ہے’’نبیؐ نے اپنی بیویوں کا مہر پانچ سو درم(تقریباًچالیس پچاس بکریوں کی
قیمت) مقرر فرمایا تھا(مسلم) اسلامی معاشرے میں مرد پر عورت کے اخراجات
برداشت کرنے کا حکم ہے اس لیے عورت کو معاش سے فارغ کر دیا گیا ۔حدیث میں
ہے’’ تمہارے ذمہ مناسب طریقے پر ان کے(یعنی عورت) کھانے کپڑے کی ضرویات کا
بدوبست کرنا ہے‘‘(مسلم) ایسا نہیں ہے جیسے شیطانی مغربی تہذیب کے اندرعورت
کو معاشی مشین بنا دیا گیا محنت مزروری سے لیکر ایڈورٹائزمنت کی دنیا میں
عورت کو اشتہاربنا دیا گیا کوئی بھی پروڈکٹ اس وقت تک فروخت نہیں ہو سکتا
جب تک اس میں عورت کو نیم عریاں نہ پیش کیا جائے۔اسلام بیزار اکثر لوگ کہتے
ہیں کہ والدین ایسے ہی بچوں کی شادیاں بغیر دیکھے ہی کر دیتے ہیں حدیث میں
ہے کہ شادی سے پہلے لڑکی کو دیکھ لینے کی اجازت ہے۔’’کسی عورت کو نکاح کا
پیغام دینا ہو تو اسے ایک نظر دیکھ لینا گناہ نہیں‘‘ (مسند۔سنن ابن ماجہ)
شیطانی مغربی تہذیب نے فعاشی اور عریانی کو تہذیب کا حصہ بنا دیا ہے انسان
اس وقت تک تہذیب یافتہ نہیں کہلا سکتا جب تک وہ کلب لائف اختیار نہیں کرتا
جہاں شراب کباب کے علاوہ روشنیاں بند کر دی جاتی ہیں اور اندھیرے میں جس کے
ہاتھ جو بھی عورت لگے وہ اس سے ڈانس اور نہ جانے کیا کیا کرتا ہے اس شیطانی
مغربی تہذیب میں عورت بچے جننے سے انکاری ہے کیوں کہ اس کی کلب لائف میں اس
سے رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جبکہ قرآن میں مرد اور عورت کو اپنی نظریں تک بچا کر
رکھنے کا کہا گیا ہے قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے’’ مومن مردوں سے
کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں
(النور:۳۰) اسلام میں مردوں کو پاک دامن رہنے کا کہا گیا ہے تاکہ ان کی
عورتیں بھی پاک دامن رہیں چنا چہ حدیث میں ہے کہ’’۔تم پاک دامنی کے ساتھ
رہو تو تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی(طبرانی) اس طرح عورتوں کو بھی کہا
گیا ہے کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں،اپنی شرف گاہوں کی حفاظت کریں اور جہالت
کی طرح اپنا بناؤ سنگار غیر محرم لوگوں کو نہ دکھائیں اس سے معاشرے میں
خرابی پیدا ہوتی ہے۔ چنا چہ قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے’’مومن
عورتیں اپنی نظریں بچا کر رکھیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔اپنا بناؤ
سنگھار نہ دکھائیں (النور:۳۱)اسی طرح عورتوں کو بھی پردے کا کہا گیا ہے۔
قرآن شریف میں ہے کہ’’مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چاردوں کے پلو
لٹکا لیا کریں(احزاب:۹۵) یہ تو ہے کامیاب ازدواجی زندگی گزانے کا طریقہ جو
ہمیں اسلام سکھاتا ہے کیا ہم اس طریقے پر چلنے کا اپنی عورتوں کو کہتے
ہیں؟یا وہ مادر بدر آزاد شیطانی مغربی معاشرے کی نکالی کر کے اس کی طرف بڑھ
رہیں ہیں؟۔صاحبو! ہمیں اپنی عورتوں کی تربیت کا خیال کرنا چاہیے اور اسلامی
طریقے جو اوپر عرض کیے گئے ہیں پر عمل کرنے کی کوشش کرنے چاہیے ۔ اﷲ تعالیٰ
قرآن شریف میں فرماتا ہے انسان کو کمزور پیدا کیا گیا اس لیے زوجیں کے اندر
اختلاف پیدا ہونا فطرتی با ت ہے مگر اس کا بھی حل قرآن میں بتا دیا گیا ہے
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے’’اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ
جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے
رشتہ داروں میں سے مقرر کرو(النساء:۳۵) ا ختلافات کی صورت میں فیصلہ کرنے
کی صلاحیت رکھنے والے ایک مرد کے اور ایک عورت کے رشتہ دار کو اختلافات دور
کرنے کی لیے مقرر کرنا چاہیے اور ان کو زوجین کے درمیان انصاف سے فیصلہ
کرنا چاہیے تاکہ زوجیں کی زندگی کی گاڑی پھرصحیح سمت میں چل پڑے۔ حدیث میں
عورتوں سے عدل نہ کرنے والے کو سخت وحید سنائی گئی ہے حدیث میں ہے’’جو اپنی
بیویوں کے ساتھ عدل نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا ایک دھڑ گرا ہوا ہو
گا(ترمذی۔نسائی) اختلافات کی صورت میں بعض دفعہ طلاق تک نوبت آ جا تی ہے اﷲ
تعالیٰ نے طلاق کو حلال اور جائز چیز ہونے کے باوجو نا پسند کیا ہے حدیث
میں آیا ہے’’ حلال اور جائز چیزوں میں اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ
چیز طلاق ہے(ابی داؤد) اگر رشتہ داروں کی کوشش اور قاضی کے فیصلے پر طلاق
ہو بے جاتی ہے توبھلے طریقے سے زوجیں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں اﷲ کی زمین
بہت ہی وصیح ہے اﷲ دونوں کے لیے کوئی اور بہتر رشتہ مہیا کر دے گا مگر
انصاف کا دمن نہ چھوٹنے پائے کیونکہ اﷲ ایک دوسرے سے درگزر کو پسند فرماتا
ہے۔
قارئین! ہماری اﷲ سے دعاء ہے کہ مسلمان معاشرہ اﷲ کے بتائے ہوئے طریقے پر
چلے اور مغربی معاشرے کی نکالی کرنا چھوڑ دے کیونکہ مغربی شیطانی معاشرے
میں تباہی ہی تباہی ہے آمین۔
|
|