دنیا کے خطر ناک جاندار

کچھ دن پہلے حسب معمول صبح ا’ ٹھ کر اخبار پڑھتے پڑھتے ایک خبر پہ نظر یوں اٹکی جیسے پورے اخبار میں یہی ایک خبر ہے باقی کورا کاغذ۔ تفصیل پڑھ کے نہ صرف حیرت ہوئی بلکہ افسوس بھی بہت ہوا۔ یقینا آپ کی نظر سے بھی یہ خبر گزری ہو خبر کا عنوان تو یہی تھا ـ․ـــدنیا کے خطرناک جاندار۔مجھے تجسس ہوا کہ دیکھوں کہ کون کون سے ایسے جاندار ہیں جو انسان کے دشمن ہیں۔کس کس سے انسان کو خطرہ ہے۔
لکھا تھا ۔نیو یارک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا قاتل مچھر ہے۔جو سالانہ ۷ لاکھ لوگوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔کتنی عجیب بات ہے۔ایک چھوٹا سا کیڑا اور ۷ لاکھ لوگوں کا قاتل! مچھروں سے بچنے کے لیے سپرے کروائے جاتے ہیں۔نئے نئے لوشن تیار کئے جاتے ہیں۔مچھر دانیاں لگا کر ان سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

آپ سوچ رہے ہونگے۔یہ کونسی اہم خبر جس کے لیے اتنی تمہید باندھ رہی؟جی ہاں مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے آپ بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں۔یہ تو عام سی بات ہے۔لیکن جناب اہم بات مجھے اس سے اگلی لائن میں نظر آئی۔ لکھا تھا کہ خطرناک جانداروں میں دوسرا نمبر انسان کا ہے۔جس کے ہاتھوں سے سالانہ ۴ لاکھ ۷۵ ہزار لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔یہ بات میرے لیے نہ صرف حیران کن بلکہ تکلیف دہ بھی تھی۔کہ انسان ہی انسان کا اتنا بڑا دشمن بن چکا ہے کہ اس کا شمار خطرناک جانداروں میں دوسرے نمبر پہ آ گیا ہے۔اگر سمجھا جائے تو یہ بہت قابل فکر بات ہے۔ابھی آگے دیکھیئے کس کا نمبر آیا ہے،خطر ناک ہونے میں تیسرا نمبر سانپ کو ملا۔ جسکا ڈنک ہر سال ۵۰ ہزار افراد کو ہلاک کر دیتا ہے۔سانپ کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔بہادر سے بہادر انسان کے بھی اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔ظاہر ہے اتنا زہریلہ جو ہوتا ہے۔مگر حیرت ہے سانپ خطر ناک ہونے میں تیسرے نمبر پہ اور انسان کا نمبر دوسرا ہے؟ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب انسان کو سانپ سے نہیں بلکہ سانپوں کو انسان سے ڈرنا چاہیے۔شائد ایسے موقع کے لیے شاعر نے کہا ہے۔کہ مقید کر دیا ہے یہ کہہ کر سپیروں نے سانپوں کو
کہ یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے

جناب آگے چلتے ہیں۔چوتھا نمبر کتے کو دیا گیا۔جس کے کاٹنے سے ۲۵ ہزار ہلا کتیں ہوتی ہیں۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے۔ کہ اج انسان کتے سے بھی بازی لے گیا۔معاف کیجیئے گا یوں کہنا کسی طور مناسب نہیں لگ رہا ہے کہ انسان وہ خطرناک ترین جاندار ہے۔جس نے سانپ اور کتے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ترقی کی کون سی منازل طے کر رہے ہیں۔یقینا اب جانور اپنے معاشرے میں یہ جملہ کہتے ہوں گے۔ سانپ دوسرے سانپوں کو اور کتا دوسرے کتوں کو سمجھا رہا ہو گا، کہ بھائی بچ کر رہنا۔د ھیان سے باہر نکلناکہ ان۔ جسکا ڈنک ہر سال ۵۰ ہزار افراد کو ہلاک کر دیتا ہے۔سانپ کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔بہادر سے بہادر انسان کے بھی اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔ظاہر ہے اتنا زہریلہ جو ہوتا ہے۔مگر حیرت ہے سانپ خطر ناک ہونے میں تیسرے نمبر پہ اور انسان کا نمبر دوسرا ہے؟ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب انسان کو سانپ سے نہیں بلکہ سانپوں کو انسان سے ڈرنا چاہیے۔شائد ایسے موقع کے لیے شاعر نے کہا ہے۔کہ مقید کر دیا ہے یہ کہہ کر سپیروں نے سانپوں کو
کہ یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے

جناب آگے چلتے ہیں۔چوتھا نمبر کتے کو دیا گیا۔جس کے کاٹنے سے ۲۵ ہزار ہلا کتیں ہوتی ہیں۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے۔ کہ اج انسان کتے سے بھی بازی لے گیا۔معاف کیجیئے گا یوں کہنا کسی طور مناسب نہیں لگ رہا ہے کہ انسان وہ خطرناک ترین جاندار ہے۔جس نے سانپ اور کتے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ترقی کی کون سی منازل طے کر رہے ہیں۔یقینا اب جانور اپنے معاشرے میں یہ جملہ کہتے ہوں گے۔ سانپ دوسرے سانپوں کو اور کتا دوسرے کتوں کو سمجھا رہا ہو گا، کہ بھائی بچ کر رہنا۔د ھیان سے باہر نکلناکہ انسان ہم سے بھی خطرناک جاندار ہے۔اپنی حفاظت کرنا۔وغیرہ وغیرہ۔
اﷲ تعالی نے انسان کو اپنی اطاعت اور دین اسلام پھیلانے کے لیے دنیا میں بھیجا۔مگر انسان تو اپنے ہی بھائی کا دشمن بن گیاہے۔اخوت اور مساوات کا سبق بھلا کر نفرت کی آگ میں جل رہا ہے۔اور یہ آگ بڑھت’ان ہم سے بھی خطرناک جاندار ہے۔اپنی حفاظت کرنا۔وغیرہ وغیرہ۔

اﷲ تعالی نے انسان کو اپنی اطاعت اور دین اسلام پھیلانے کے لیے دنیا میں بھیجا۔مگر انسان تو اپنے ہی بھائی کا دشمن بن گیاہے۔اخوت اور مساوات کا سبق بھلا کر نفرت کی آگ میں جل رہا ہے۔اور یہ آگ بڑھتی جا رہی ہے۔یہ سب ایمان کی کمزوری اور دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ہم سے وہ غلطیاں ہو رہی ہیں ۔جو ہر طرف رسوائی کا باعث بن رہی ہیں۔بس فکر ہے تو یہ کہ خدا وہ وقت نہ لائے کہ انسان ہلاکتوں میں مچھر کو بھی مات دے دے۔۔شائد اسی لیے شاعر نے کہا ہے کہ۔ چڑیوں سے کہو شاخ نشیمن سے نہ اتریں
اس دور کا ہر شخص عقابوں کی طرح ہے۔
Fouzia Kb
About the Author: Fouzia Kb Read More Articles by Fouzia Kb: 8 Articles with 7988 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.