بے لگام گھوڑا

سکول میں بہت سے بچے تھے ان میں سے بہت سے لائق ،نالائق،امیر،غریب،اچھے ،برے،ہر قسم کی سوچ ،نظریہ،خیالات،رکھنے والے تھے ان میں سے چند بچوں میں مقابلے کا رحجان تھا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اپنی اپنی جگہ ہر ایک کی کوشش تھی کہ وہ نمایاں ہو مگر اپنے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے کچھ مقابلے کی دوڑ میں آگے تھے اور کچھ نارمل بس وقت پورا کرتے ان میں سے تین چار بچے ایسے تھے جو مقابلے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے اگے نکلنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے،ان کا مقابلہ کرنے والے بچوں کے پیچھے بھی بہت سے ہاتھ ،سوچ،قوت،پیسہ تھا جن کی بنیاد پر وہ خود کو مقابلے کے لئے تیار کرتے ،جس طرح ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں،مثبت،منفی،پردے کے سامنے اور پردے کے پیچھے،دنیا میں بہت سی ایجاد ات ایسی ہیں جن کو مثبت سوچ لیکر بنایا گیا مگر ان کا منفی یا غلط استعمال معاشرے کے لئے تباہی کا باعث بنا اسی طرح مقابلہ بازی کا رحجان ایک طرف تو بہت اچھا نظرآتا ہے اس سے اگے بڑھنے کی ہمت،اور حوصلہ ملتا ہے مگر جب یہی مقابلے کی دوڑ حسد،نفرت،اور دشمنی میں بدل جائے تو پھر انسان کچھ بھی نہیں دیکھتا ،بلکہ تمام تر جائز و نا جائز زرائع استعمال کر کے وہ تمام تر اخلاقیات،اسلامیات،انسانیت،کلچراپنی روایات کو پاوں کی ٹھوکر پر لیتا ہے وہ بچے جو مقابلے کی دوڑ میں شامل تھے ان میں سے ایک بچہ ایسا تھا جسکے پاس دنیا کے تمام وسائل یعنی، دولت، سفارش، طاقت، صلاحیت، برادری،نام کسی چیز کی کمی نہیں تھی اس بچے نے ایک وقت تک تو مقابلہ کیا مگر بعد میں اس نے اپنی چوہدراہٹ،کو برقائم رکھنے کے لئے اپنے وسائل ،زرائع،اور اختیارات کا غلط استعمال کر کے دوسرے بچوں کو دبانہ دھمکانہ اور خود کو بے لگام گھوڑے کی طرح آزاد سمجھنے لگا،اور وہ تمام اصول، ضوابط اور قانون کی خلاف ورزی کرناشروع کر دی جو کسی بھی حوالے سے جائز اور معیار پر نہیں تھی ،وہ مقابلہ جو جذبہ محنت پیدا کرتا تھا،وہ مقابلہ جو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے ہوتا ہے،وہ مقابلہ جوخود عتمادی پیدا کرتا ہے ،اب دشمنی ،حسد،اور نفرت میں بدل گیاجس کا نتیجہ بھلائی،بہتری نہیں بلکہ تباہی ہے۔۔

یہی حال ہمارے ملک میں میڈیا کا ہے جس کا کام معاشرے میں بہتری لانا، اگاہی پیدا کرنا،اپنے کلچر کو برقرار رکھنا ،عوام میں شعور بیدار کرنا،اپنی روایات اور مذہبی ،اخلاقی،رواداری کو قائم رکھنا تھا ،جس کا کام معاشروں سے برائی ختم کر کے اچھائی اور انصاف کابول بالا کرنا تھا ،جس کا کام عوام کو ایک سوچ ایک خیال ایک نظریہ دینا تھا بد قسمتی سے وہ اپنی آزادی ،آزادی کی رٹ میں مقابلہ بازی پر آگیا اور آج وہ مقابلے اور ریٹنگ کے نام پر بے لگام ہاتھی بن گیا تمام روایات اخلاقیات ،مذہب،اور ثقافت کو اپنے پاوں تلے روندتے ہوئے بربادی کا سبب بن گیا، اپنی ریٹنگ کی خاطر ایسے ایسے پروگرام ،شوز، چلائے اور دیکھائے جاتے ہیں جن کا کوئی مقصد ہے نہ کوئی سبق اور نہ کوئی اخلاقی ضابطہ،یہی نہیں بلکہ آزادی کے نام پر میڈیا نے خود کو کاروباری فیکٹری کے ساتھ ساتھ ایجنڈا فیکس مشین بنا دیا ،ریٹنگ ،دولت ،یا پھر کوئی اور مشن کوئی بھی نام دے دو اس دوڑ میں ایسے ایسے ڈرامے دیکھائے جا رہے ہیں جو کسی بھی حوالے سے اخلاقیات کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ مذہبی،نعوذ باﷲ،پیغمبروں ،صحابہ کرام کی تذلیل کا باعث بن رہے ہیں قران و سنت کا مذاق اڑیا جا تا ہے میڈیا کا یہ بے قابو گھوڑا کھر کھر میں گھس کر اپنا نہیں بلکہ غیر ملکی ،دشمنوں کی سوچ اور نظریات کو مسلط کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے،جس کا کام ایک سوچ دینا تھا اس میڈیانے نفرت،فرقہ واریت،تعصب،کو ایسی ہوا دی کہ ایک تھالی میں کھانے والے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ،میڈیا کا کام ملک ،ادارے ،تنظیمیں،معاشرے ،انسانوں،کو جوڑنا ہوتا ہے توڑنا نہیں،ثقافت،کلچر،معاشی زندگی کو ٹکڑے کرنے میں کوئی کیسر نہیں چھوڑی،غیر اخلاقی،من گھڑت ڈراموں نے نوجوان نسل کی اصلاح کے بجائے ان کو نہ محسوس ہونے والی بربادی کی طرف لے جانے میں بڑا ہاتھ ہے ،حیرت کی بات ہے کہ برے بڑے دانشور،عالم،فاضل،ان چینلوں میں بیٹھ کر بے ہودہ غیر اسلامی،غیر اخلاقی،پروگرام ،مقابلہ اورآزادی صحافت کے نام پر ترتیب دیتے ہیں جس کو فیملی تو دور کی بات اکیلے دیکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ڈراموں میں ایسے ایسے فاش ،غیر معذب الفاط بولے جاتے ہیں جن کو منڈیوں ،بازاروں اور طوائفوں کے گھروں میں بھی نہیں بولا اور سنا جاتا۔کوئی بھی آزادی ہو یا غلامی،پستی ہو یا عروج ،اجاراداری ہو یا چوہدراہٹ،اگر وہ حد سے تجاو ز کر جائے ،اپنے دائرے سے نکل جائے تو زوال اور بربادی اس کا مقدر بن جاتے ہیں۔تحت کوئی فیصلہ کرے نہ کرے مگر وقت ضرور فیصلہ کرتا ہے اور جب وقت اپنی گرفت میں لیتا ہے تو پھر اسے کوئی سفارش ۔کوئی طاقت بچا نہیں سکتی،میڈیا کے مارننگ شوز جن کو مارننگ نہیں بلکہ بازار شو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اس حد تک بے قابو ہیں کہ ان میں سوائے جگت بازی اور ہنگامے کے کچھ نہیں،پیسہ کمانے کی اس دوڑ میں یہاں عام آدمی اندھا ہو چکا ہے وہاں میڈیا میں بیٹھے سربراہ ،نگران،بھی اندھے نہیں بلکہ بہرے ،گھونگے بھی ہو گئے ان کو کچھ سنائی کچھ دیکھائی نہیں دیتا ۔تمام میڈیا،چینل پر چلنے والے پروگرام،شوز کو ضابطہ اخلاق میں راہ کر کام کرنا چاہیے، ایک بورڈ ہو جو ان پر غیر جانبدار،اور دباو کے چیک رکھے،مارنینگ شو کو فیملی شو ہونا چاہیے بازار حسن کا شو نہیں۔یہاں تو ایک میڈیا گروپ نے نظام حکومت سنبھال رکھا ہے سیاہ سفید کا مالک جس کو چائے بدنام کرے جس کو چائے نام دے۔ حکمرانوں کو بلیک میل کر کے اپنے مقاصد پورے کرنا،خود کو تمام تر قانون سے بالا سمجھنا،یہاں تک کے تختے الٹنا،اپنی مرضی کے جھوٹ پر پروپگنڈا کرنا اس نے اپنا وطیرہ بنا رکھا تھا، مذہب،معاشرہ،اخلاقیات،انسانیت،ملک کی سلامتی،اس نے جوتی کی نوک پر رکھی تھی ،مگر نظام قدرت ہے کہ اپنا مدار چھوڑو گے تو تباہ ہو جاو گے وہی کچھ آج کل اس کے ساتھ ہو رہا ہے ، اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ اختیارات اﷲ کی امانت ہوتے ہیں ان کا غلط استعمال امانت میں خیانت کے ساتھ ساتھ ملکی مفاد کے خلاف بھی ہوتا ہے ۔قانون،اصول،ضابطے اس ملک کی کتابوں میں تو ملتے ہیں مگر ان کا عملی طور پر نفاذ صرف غیریب اور کمزور کے لئے کیا جاتا ہے ۔ دنیا بھر میں میڈیااپنا کردار ادا کر رہی ہے مگر جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے وہ بس یہی مثال بنتی ہے کہ بندر کے ہاتھ میں استرا دے دو اور پھرحال دیکھو سر کا ۔آزادی رائے اور بدتمیزی میں فرق ہوتا ہے،آج کل جو کچھ میڈیا کرا رہا ہے وہ آزادی نہیں بلکہ بدتمیزی ہے ،جو اس قوم کے ساتھ ،اس معاشرے کے ساتھ،اس نسل کے ساتھ کی جا رہی ہے۔آزادی رائے مسائل حل کرتی ہے پیدا نہیں۔۔۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75005 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.