کوڑھ زدہ کون……؟

منشیات کی فراوانی ،اس کا آزادانہ اور بے جا استعمال کسی بھی معاشرے کی ذہنی وجسمانی نشوونما اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ان کے مفلوج ہونے کا سبب ہے ذہنی جسمانی طور پر صحت مندو توانا قومیں ہی ترقی وخوشحالی کی جانب گامز ن ہوسکتی ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں غربت ،مہنگائی،بے روزگاری،لاقانونیت،افراتفری،انتشار اور دہشت گردی کے عفریت نے قوم کو ذہنی مریض بنا دیا ہے ان کا دن کا سکون اور رات کی نیند اڑا دی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 15سے64سال کی عمر کے بچے ومرد حضرات اپنی ذہنی تسکین کیلئے منشیات کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں اس میں عادی افراد کی تعداد تقریبا67لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے ۔ہر شہر اور دیہات میں منشیات فروشوں کے اڈے قائم ہیں جہاں شراب،افیون،چرس،گانجا،ہیروئن،بھنگ اور دوسرے ہر قسم کا نشہ وافر مقدار میں کھلے عام فروخت ہوتا ہے پولیس اور حکومت کے تمام متعلقہ ادارے جوکہ منشیات کی روک تھام اور بیخ کنی کیلئے بنے ہوئے ہیں وہ سب اس مکروہ اور غلیظ دھندے کے بارے میں باخبر ہونے کے باوجود اس میں ملوث افراد پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے ہیں ۔اسکی ایک وجہ تو سیاسی وبیوروکریسی کی سرپرستی بتائی جاتی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے تو انہی کے دم سے چلنے والے اہلکاروں اور افسران کی خوشحالی بدحالی میں تبدیل ہونے کے چانسز روشن ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز اخبارات میں اور چینلز پر منشیات اور اس کی خریدوفروخت کرنیوالوں کی گرفتاریوں کی خبر نشر ہوتی ہیں ۔اور یہ بھی بتایا اور دکھایا جاتا ہے کہ فلاں علاقے کی پولیس اورنارکوٹکس والوں نے سیکڑوں من چرس افیون اور کئی ہزار لیٹر شراب کو آگ لگادی ہے اور ضائع کردیا ہے حالانکہ ذرائع کے مطابق ان جلائے جانیوالے مواد میں چند سو لیٹر شراب وہ بھی رنگ ملی کو ضائع کیا جاتا ہے اور چند کلو افیون وچرس کو جلا دیا جاتا ہے جبکہ چھپائی جانے والی منشیات پھر سے پولیس کی سربراہی میں مارکیٹ میں آجاتی ہے اور اس سے بھی پہلے وہ منشیات فروش بھی معاشرے میں دندناتا پھررہا ہوتا ہے جوکہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے اورسخت قوانین انسداد منشیات کی آئے روز مہم، نارکوٹکس فورس کے جگہ جگہ ناکے،ر سرچ آپریشن اور چیکنگ کے باوجودہمارے معاشرے میں منشیات کا استعمال جس تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے ہمارے لئے اور حکومت کیلئے بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔

اب اس کا دوسر ا پہلو بھی دیکھتے ہیں۔ان منشیات کا شکارجو لوگ آپ کو گندگی یا کیچڑ میں لتھڑے دکھائی دیتے ہیں کسی قبرستان ،کسی آستانے،نالی یا گڑ میں پڑے جلتے ہیں جنہیں ہم جہاز ،چرسی ،بھنگی اور نشئی جیسے ناموں سے پکارتے ہیں ان سے کراہت کرتے ہیں کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں حتی کہ ان کے اپنے گھر والے بھی ان سے اجتناب برتنے لگتے ہیں یہ تڑپتے سسکتے لوگ نشان عبرت ہیں آبادی سے در کوڑھی کی مانندزندگی کے جہنم میں جلتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے عزیز اقربا کو بھی اذیت میں مبتلا کئے رکھتے ہیں ۔ہم سب بھی من حیث القوم ان کو غلاظت ،گندگی اور نالی میں پڑا دیکھ کر حقارت کی نگاہ ڈال کر گزر جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر ریڑھی بان،مزدور،چھابڑی والے ،خوانچہ فروش،پھیری والے یعنی نچلے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں جوکہ معاشرے کی بے حسی ،حالات کی تنگدستی ،حکومت کے بے پرواہی کا غم غلط کرنے کی خاطر ،وقتی سکون پانے کی خواہش میں اس مکروہ اور غلیظ فعل میں اپنے آپ کو ملوث کرلیتے ہیں او رمعاشرہ انہیں کوڑھ زدہ سمجھتا ہے ۔حالانکہ اگروہ نشہ نہ بھی کریں تب بھی وہ پاکستانی معاشرے میں کوڑھ زدہ ہی گردانے جاتے ہیں اور لوگ 95%میں سے ہیں

ملک کی 5% رہ جانیوالی اشرافیہ جو کہ مذکورہ بالا سب افعال سرانجام دیتی ہے۔ ان کے ڈیروں،دفاتر، بیڈ رومز،عشرت کدوں میں بھی چرس افیون شراب حتی کہ ہیروئن بھی پی اور پلائی جاتی ہے ہماری اشرافیہ ان کو اپنے سٹیٹس کا حصہ سمجھتی ہے۔ ان حلقوں میں یہ قبیح افعال برے نہیں جانے جاتے بلکہ ان کو اپنی روزمرہ کے معمولات کا حصہ سمجھا جاتا ہے بلکہ نہ پینے پلانے والے کو اپنی اعلی سوسائٹی کا حصہ ہی نہیں مانا جاتا۔جو جتنی اعلی پائے کی منشیات استعمال کرتا ہے اس کو اتنا ہی زیادہ اعلی سوسائٹی کا ممبر گردانا جاتا ہے۔پولیس کو اطلاع کے باوجود ان کے گھر دفتر ڈیرے میں جانے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ ہی اجازت بلکہ یہ شراب و کباب کی محافل ان کی زیر نگرانی بڑے دھڑلے سے جاری وساری رہتی ہیں اور کہیں کہیں پر ان کو بھی ساتھ ملایا لیا جاتا ہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ اکثر بیوروکریٹس اپنے دفاتر میں جانے سے پہلے چسکی لگانا لازمی سمجھتے ہیں چونکہ یہ لوگ ’’عادی مجرم ‘‘ہوتے ہیں۔ اعلی برانڈ ک وجہ سے ان کے منہ سے بو بھی نہیں آتی اور پی کر سڑک پر بھی نہیں گرتے اس لئے معاشرے میں اشرافیہ کا تمغہ سجائے پھرتے ہیں۔دوسری طرف بہکنے والے چونکہ سستی اور غیر معیاری الکوحل اور عام منشیات استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھار کرتے ہیں تو پھر ان کا بہکنا، لڑکھڑانا اور گرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔افعال و اعمال دونوں کے ایک جیسے ہیں۔ دونوں ہی قابل نفرت ہیں۔ دونوں ہی قابل گرفت ہیں، دونوں ہی کوڑھ زدہ ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ ایلیٹ کلاس کو تمام مراعات اور اختیارات حاصل ہونے کی بنا پرتمام گناہوں سے بری الذمہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ پردہ پوشی کر دی جاتی ہے ان کے جرائم پیسے کی چمک کی تیز روشنی میں دھندلاجاتے ہیں۔کوڑھ زدہ کون ہیں یہ فیصلہ آپ خود کرلیں۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 193321 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More