197صفحات پر مشتمل اس کتاب کا
پہلا ایڈیشن اگست 1954میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔دنیا بھر میں ہونے والے
ریکارڈز اپنے سینے میں محفوظ کئے گنیز ورلڈ ریکارڈزیا گنیز بک آف ورلڈ
ریکارڈزاب ہر سال سال شائع ہوتا ہے جس میں دنیا بھر کے ورلڈ ریکارڈز شائع
ہوتے ہیں چاہے وہ انسانی ایجادات ہو یا قدرتی ۔اس کتاب نے خود سب سے زیادہ
فروخت ہونے والے کتاب کا ریکارڈبنایا ہے اور یہ بھی بتاتا چلو کہ امریکہ
میں لائبریریوں سے سب سے زیادہ چوری ہونے والا کتاب بھی یہی ہے۔گو کہ اس
کتاب میں آپ ہر ملک میں ہونے والے ریکارڈز پڑھ سکتے ہیں۔اس کتاب میں بہت سے
ممالک نے اپنے ریکارڈز رقم کئے ہوئے ہیں۔بعض انفرادی ریکارڈز بھی اس کتاب
کا حصہ ہیں۔یہ کتاب عجیب و غریب ریکارڈز پر مشتمل ہے، اس کتاب میں آپ دنیا
کی بلند ترین عمارت،بڑا ڈیم،سسپنشن بریج،بلند ترین ہوٹل،سب سے زیادہ دیکھا
جانے والا شھر،طویل ترین زیر آب سرنگ،مصروف ترین ایئر پورٹ وغیرہ وغیرہ
جبکہ جانوروں کے متعلق بھی بہت سے ریکارڈز پائے جاتے ہیں جیسے سب سے بڑی
مچھلی،سب سے زیادہ سونے والا جانور،دراز قد ممالیہ،تیز رفتار پرندہ،سب سے
بڑا انڈہ۔یہ کتاب تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے
ریکارڈز رکھتا ہے۔ اس کتا ب میں آپ شوبز کے متعلق ریکارڈزبھی دیکھ سکتے ہیں
جیسے زیادہ فلمیں بنانے والا ملک،سب سے زیادہ آسکر ایوارڈزجیتنے والے
فلمیں،سب سے زیادہ اور سب سے کم معاوضہ وصول کرنے والا اداکار و اداکارہ۔یہ
کتاب تعلیم اور کھیل کے میدان میں ہونے والے ریکارڈز بھی اپنے سینے میں
محفوظ کر چکاہے جس کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔روز روز نت نئے ریکارڈز اس
کتاب کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں اپنے ملک پاکستان کے طرف۔
ناماساعد اور اعصاب شکنحالات میں پاکستانیوں نے بھی اپنے ریکارڈز اس کتاب
میں درج کروائے ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ حالات جو بھی ہو کوئی
ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتے۔ یہ ہمارے ہیروز ہیں اور ہمیں ان پر فخر
ہے۔یہاں میں چند اک کا ذکر کرتا چلوں۔
2008میں پاکستانی ڈاکٹروں نے آپریشن کے ذریعے 620 gmکا کڈنی سٹون نکالاجو
اس کتاب کا حصہ بنا۔ کرکٹ کے میدان میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا بھی
پاکستانی،دنیا کا تیزترین باؤلر بھی پاکستانی،سب سے زیادہ سکواش ٹائٹیل
جیتنے والا بھی پاکستانی ۔سیالکوٹ کے ایک سٹور نے دنیا کا سب سے بڑا فٹبال
بنا کر اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈزمیں درج کرایا۔رقبے کے لحاظ سے سب
سے بڑی مسجد بھی پاکستان کا شاہ فیصل مسجد ہے۔سب سے زیادہ ایمبولینس رکھنے
والے رضاکارتنظیم کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔ انسانوں سے قومی پرچم بنانے
کا ریکارڈ ہو یا قومی ترانہ پڑھنے کا ریکارڈہو،بیک وقت یہ ریکارڈز پاکستان
کے پاس ہے۔۔
اب ملاحظہ کیجئے وہ ریکارڈز جو ابھی تک گنیزبک میں جگہ نہیں بنا پا ئے ہیں
کیونکہ ابھی کچھ اور بھی درکارہے ۔رشوت خوری،سفارشی
کلچر،اقرباپروری،پروٹوکول کلچر،الیکشن میں دھاندلی،جنسی
تشدد،چوری،کلنگ،خودکش حملے ۔ بینکوں سے قرضے معاف کروانا ہو یا اپنوں کو
نوازنا ہو،ملکی دولت لوٹنا ہو یا میگا پراجیکٹس میں خرد برد،پی آئی اے ہو
یا سٹیل مل وغیرہ وغیرہ۔عوام بھوک سے مرے اورہمارے وزیراعظم صاحب حلف
برداری کے لئے 12لاکھ کی شیروانی بنائے۔گرمی سے عوام تڑپ رہے ہو اور صدر
صاحب 15لاکھ کے تصویریں بنائے ۔گنیز بک والے شائد نہیں جانتے کہ سب سے
زیادہ ریکارڈزتو پاکستان میں بننے والے ہیں۔دھوکہ بازی میں ہم بھی کسی سے
کم نہیں۔گنیز بک والوں کو ہم نے بھی دھوکہ دیکر کئی اعزازات اپنے نام کئے
جنکا بعد میں گنیز بک والوں نے بھانڈہ پھوڑدیا۔جھوٹ اور منافقت کے عالمی
ریکارڈز اور تو اور جوشِ خطابت کا ریکارڈ بھی پاکستان کے پاس۔۔18گھنٹے تک
طویل اور ظالمانہ لوڈشیڈنگ کا ریکارڈاور دوسری طرف ریینٹل پاور میں
کرپشن۔کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ منصفوں کے اپنے دامن بھی داغ سے پاک
نہیں۔
آئے روز اک نئے بنتِ حوا کی عصمت دری ہوتی ہے۔انسان نما بھیڑئیے آزاد پھر
رہے ہیں۔نظام عدل کا نام و نشان تک نہیں جو اِن درندوں کو سرِعام پھانسی پہ
لٹکائے ،جو لو گوں کا اعتماد بحال کرے کہ حکومت نامی کوئی چیزہے ۔لیکن
ہمارے حکمرانوں کو اپنے جان کی حفاظت کی پڑی ہوئی ہے۔22کروڑ کے 2بی ایم
ڈبلیو صاحب ِکرسی کے لئے خریدے گئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کا قول ہے کہ
ــــ’’جب حکمران اپنی جان کی حفاظت کو ترجیح دینے لگیں تو وہ ملک و قوم کی
آبرو کی حفاظت کے قابل نہیں رہتی‘‘۔لوگ انصاف کے لئے سالوں سال در در کی
ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔انصاف کے متلاشی انصاف نہ ملنے پر زندگی کا خاتمہ کرتے
ہیں۔ریکارڈز یہی ختم نہیں ہوئے ،ریکارڈ پہ ریکارڈ بن رہے ہیں۔پولیس رشوت
خوری میں،کلرک ریکارڈز کے ھیر پھیر میں،ڈاکٹر ز پرائیویٹ مریضوں سے زیادہ
فیس کے وصولی میں،وکیل مظلوم سے چمڑہ اُتارنے میں ، وعلیٰ ھذالقیاس۔سب اپنے
اپنے شعبے میں ریکارڈز بنا رہے ہیں۔ عوام غربت کے مارے فاقوں کی زندگیاں
بسر کر رہے ہیں وہی ہمارے حکمران عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ جہاں بچے بھوک سے
مر رہے ہو وہاں ہمارے حکمران نام نہاد پروٹوکول پر کروڑوں روپے خرچ کرکے
اپنے بڑے پن کا احساس دلارہے ہیں ۔جہاں کے عوام کو پینے کا صاف پانی میسر
نہ ہو ،جہاں لوگ بھوک کے ہاتھوں جانوروں کی طرح زندگیاں ہار جاتے ہو،جہاں
دین سے لیکر دودھ اور دوائیوں تک کوئی بھی چیز خالص نہ ملتی ہو،جہا ں سکول
ٹیچر سے لیکر لیڈی ھیلتھ ورکر جیسے انسان دوست پیشوں سے وابستہ افراد کو
کئی ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی بند ہو،جہاں کے سپریم کورٹ اور پارلیمنت
لاجزکی بجلی بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کا ٹی جائے،جہاں ہر ادارے میں لوٹ
مار جا ری ہو ،کیا اُس ملک کے حکمرانوں کوقومی جھنڈے اور قومی ترانے سے
ورلڈ ریکارڈز بنانے زیب دیتے ہیں؟ جہاں کے عوام بجلی کو ترس رہی ہو، جہاں
کے عوام بنیادی ضرورتوں سے دور رکھے جا رہے ہو ،جہاں غریب کا بچہ تعلیم
حاصل کرنے سے قاصر ہو،جہاں کے کاشتکار سے غریب ہاری کی بیٹی اور بیوی کے
عزت کا تحفظ نہ ہو،جہا ں بے گناہ شہریوں کو پولیس کے جعلی مقابلے میں مارے
جا رہے ہو،جہاں لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں 25 سالہ فرزانہ کو اینٹیں مار
کر مار ی جاتی ہو اور ملزمان آسانی سے مفرور ہوجائے، جہاں جنسی زیادتی کی
شکار لڑکی انصاف نہ ملنے پر پولیس سٹیشن کے سامنے خودسوزی کرے،جہاں روپوں
کے بل بوتے پر عدالتوں میں کیسز اور ججز خریدے جاتے ہو، جہاں کے آمیر اور
خود سر بچے شاہ زیب جیسے بے شمار نوجوانوں کو قتل کریے ،جہا ں کے MPA صاحب
معزز پیشہ سے وابستہ ڈاکٹر کو سر عام تھپڑ رسید کرتا ہو جن کا گناہ صرف یہ
ہو کہ وہ سلامی کے وقت صاحب کے لئے اٹھا نہیں تھا، جہاں کے سکول ٹیچر پر
کتے چھوڑ دئیے جاتے ہو تو آپ بتایئے اُس ملک میں اور ریکارڈز بنانے کی کیا
ضرورت ہے؟ جہاں لوگ انصاف کے لئے خود سُوزی کرتے ہیں اور انصاف حاصل نہیں
کر پاتے، اس کے برعکس PCB کا چیرمین 12گھنٹوں کے اندر عدالتی فیصلہ پر بحال
ہوتے ہے۔ اور بھی ریکارڈز بننے والے ہیں جیسے جنسی زیادتی کے ریکارڈز، غربت
کے مارے لوگوں کی اپنے گردوں اور بچوں کی فروخت، ہسپتالوں سے نو زائدہ بچوں
کی چوری ،نہ جانے اور کتنے اور کس قسم کے ریکارڈز اس ملک سے منسلک ہونگے۔فی
الحال یہی ریکارڈز کافی ہیں۔۔۔ ہاں یاد آیا۔۔ وزیراعظم صاحب بھی کسی سے
پیچھے نہیں، پاکستانی تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم کا ایک سال میں14
غیرملکی دوروں کا ریکارڈ بھی اپنے نام کر چکاہے۔ |