ڈاکٹر مبارک علی کے روشن افکار
(Shoaib Shadab, Islamabad)
ڈاکٹر مبار ک علی ایک روشن خیال
دانشور، فلاسفراور تاریخ دان ہیں اْن کا علمی شعبہ تاریخ ہے مغرب اور مشرق
کی تاریخ پر اْن کی بے شمارکتب شائع ہوچکی ہیں اور اس حوالے سے تاریخ پبلی
کیشن اُن کی کتب کی اشاعت دنیا بھر میں کررہی ہے۔ان کا علمی کام تاریخ کی
تحقیق ، تنقیداور تشریح اور معاشرتی مسائل پر تحقیق وتجزیہ ہے۔اس حوالے سے
وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں اپنی علمی اور تحقیقی سرمایے کی بدولت وہ
پاکستان سمیت دنیابھرکے بے شماریونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں سے ایوارڈ
وصول کرچکے ہیں۔سچ کی پاداش میں وہ آمریت اور جمہوریت کے مختلف ادوار میں
زیرِ عتاب بھی رہے، مگر وہ اپنے حقیقی نظریے کی پرچارسے کبھی دستبردار نہیں
ہوئے۔ اسی وجہ سے اْن کے نظریاتی پیروکاروں کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ ذیل
میں اْن کی کتاب تاریخ اور دانشور سے اْن کے چند روشن افکار کا مطالعہ کیا
جاچکا ہے۔
نسل پرستی کی ارتقا پر تحقیقی روشنی ڈالتے ہوئے اْن کا کہنا ہے کہ اہلِ
یورپ کو دوسری اقوام پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے نسل پرستی کے نظریے کو
ہوا دینی پڑی ہے جس کے باعث روشن خیالی کو شدید دھچکا لگاہے۔اسی طرح حقیقت
کی جگہ رومانیت کو فوقیت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔اور فاتح اقوام نے مفتوحہ
اقوام کو غیر مہذب اور وحشی ثابت کرکے اْن کا استحصال کرنے کے لیے یہ
تاثرعام کیا ہے کہ سائنسی اور ماحولیاتی عنصر کئی معاشروں کی ترقی کی راہ
میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔ اور اسی کی آڑ میں کالونیل کو فروغ دیا گیاہے
تاکہ دوسرے اقوام کی ترقی کا راستہ روکا جاسکے۔ اسی حوالے سے وہ لکھتے ہیں
کہ ’’ روشن خیالی کے نظریات کو اس وقت سخت دھچکا لگا جب یورپ میں نپولین کی
فتوحات کے نتیجے میں قوم پرستی اور رومانیت اور نسل پرستی کے جذبات پیدا
ہوئے۔ نو آبادیاتی نظام نے خصوصیت سے نسل پرستی کو خوب فروغ دیا اور اہل
یورپ نے اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے اس نظریہ سے بھر پورفائدہ اٹھایا اور
فتوحہ قوموں کو غیر مہذب اور وحشی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ترقی کا عمل
تمام قوموں میں ایک جیسا نہیں ہوتاہے۔ کچھ قومیں ترقی کرتی ہیں اور کچھ ایک
ہی جگہ ٹھہرکررہ جاتی ہیں جو قومیں ایک جگہ منجمد ہوجاتی ہیں، ان کی ترقی
کی راہ میں رکاوٹیں ماحول کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں اور اس کی وجہ بھی قوموں
میں بیولوجیکل فرق ہوتاہے۔ ان میں کچھ لوگوں میں ترقی کرنے کی خواہش موجود
ہوتی ہے اور کچھ لوگوں میں نہیں ہوتی‘‘۔
یوں تو دنیا میں انسانی آزادی اور اُن کے حقوق کا پرچار ہر ممالک کرتی ہیں
مگر حقیقی تناظر میں انہیں ممالک کے اندرنوآبادیاتی سیاست اور طقباتی سوچ
اس قدر جڑ پکڑچکاہے،انہی معاشروں کو اندرسے دیمک کی طرح چاٹ رہاہے۔ جس سے
سماج میں عدم برداشت اورہر طبقہ ایک دوسرے کے مذہبی ،سیاسی اورسماجی حقوق،
معاشرتی اور قانونی اقدار کا پاس تک نہیں رکھتا۔ہر طقبہ سماج میں اپنے آپ
کو دوسرے طبقے پرفوقیت دینے میں دولت و توانائی صرف کررہاہے۔اسی وجہ سے ایک
دوسر ے کو اپنے سے کم تر اورجاہل ثابت کرنے میں نت نئے حربوں کے ساتھ ہمہ
وقت مصروف نظرآتے ہیں۔ضرورت تو اس امرکی ہے کہ ہرقوم اور طبقہ دوسرے کو
انسان سمجھ کر اُن کے بنیادی انسانی و آئینی حقوق تسلیم کرے اور صبرع تحمل
کے ساتھ سماج میں زندگی گزارے۔ کسی بھی سماج میں اس طرح کے تضادات
نوآبادیاتی سیاست سے ماخوزکیے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہی رویے دوسرے طقبوں کو
زیرکرنے اور اُن پر مسلط ہونے کے حربے ہیں۔ اور یہ نوآدبادیاتی سوچ ہرگز
ٹھیک نہیں ہے کہ ترقی کے عمل میں بالا دست قوم یا طبقے میں ہرطرح کی
قائدانہ اور تخلیقی صلاحیتیں ہوتی ہیں اور زیردست طبقے یا اقوام انہی
صلاحیتیوں سے محروم ہوتے ہیں۔وہ اہل یورپ کے ان نظریات کو مسترد کرتے ہوئے
کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی کا دارو مدار انہی قوموں میں موجود لوگوں کی
ذہنی بالیدگی پرمنحصر ہے۔اورروشن خیال دانشور طقبہ قوموں کی ترقی کے ذریعے
ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک علی کا کہناہے ’’کہ وہ قومیں جن کی اپنی کوئی دانشورانہ روایات
نہیں ہوتی ہیں۔ ان کی دنیا میں کوئی عزّت نہیں رہتی ہے‘‘۔ ان کے مطابق دنیا
میں کسی بھی قوم کو اپنا لوہا منوانے کے لیے دنیا کی تہذیب کا حصّہ بننا
پڑے گا۔ اپنی قومیت کے خول میں بند ہوکروہ صرف علاقائی قوم کے طور پر
پہچانا جائے گا۔ مستقبل میں شاید دنیا کو اْس کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ اسی
حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ’’کسی قوم کی اسی وقت عزّت ہوتی ہے کہ جب وہ دنیا
کی تہذیب میں کوئی اضافہ کررہی ہو‘‘اُن کے مطابق کسی بھی قوم کو دنیامیں
زندہ رہنے کے لیے تعلیم اور تربیت کی ضرورت پر زور دینا ہوگا اور ثقافتی
تغیرقوموں کے مستقبل کو سنوارنے کے ذریعے ہوتے ہیں اور ترقی کی ضمانت علم
،سائنس اور ٹیکنالوجی پر ہی منحصر ہے۔ اسی حوالے سے اْن کا کہنا ہے کہ ’’
اْس کے لیے غورکرنے کا مقام ہے کہ دنیا کی ترقی میں ہمارا کیا حصّہ ہے؟ ہم
نے سائنس و ٹیکنالوجی، طبّ، فلسفہ، آثار قدیمہ، علم بشریات، عمرانات اور
دوسرے علوم میں کیا کارہائے نمایاں کئے ہیں؟ کیونکہ ہم یہ مطالبہ نہیں
کرسکتے ہیں کہ ہماری کم علمی اور کند ذہنی کے باوجود ہماری عزّت کی جائے‘‘۔
ڈاکٹر مبارک علی کے انہی افکار کی روشنی میں کسی بھی قوم کو زندگی کے ہر
شعبے میں آگے آکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگااور اپنی صلاحیتوں کو دنیا میں
عام کرنا ہوگا جس طرح دوسرے اقوام کی صلاحیتوں پر آج انسانی معاشرہ کھڑا ہے
اور بغیر محنت کے ہم اْن کی صلاحیتوں کے ثمرات سے مستفید ہورہے ہیں۔دنیا
میں تمام انسانوں کے بنیادی انسانی و معاشرتی حقوق کو تسلیم کرنا ہرمعاشرے
کا فرض ہے اور یہ ہرمعاشرے کے انسانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی صلاحیتیوں کو
بروئے کار لاکر اپنے معاشرے کی خدمت کریں۔ دوسرے اقوام کی برابری یا اُن سے
برتری کا دعویٰ خیالی بنیادوں پر نہیں کی جاسکتی بلکہ عملی اور تخلیقی
بنیادوں پر کی جاسکتی ہے۔ اگر ایک قوم دنیامیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو
دنیا کی ترقی کے لیے صرف نہیں کرسکتاتو غالباً دنیاکے لیے وہ ایک بیکار قوم
قرار دیاجاسکتاہے۔ جس طرح دنیا کے دیگر اقوام نے مختلف شبعہ ہائے زندگی میں
نمایاں کارنامے سرانجام دیئے ہیں اور انہی کی تخلیقات دنیا اور دوسرے
معاشروں کی ضرورت بن چکے ہیں۔ اسی طرح خیالی بنیادوں پر برتری حاصل کرنے کی
کوشش سے بہتر ہے کہ حقیقی و عملی بنیادوں پر دنیاکے ساتھ قدم ملاکر چلنے
اور اُنہیں اپنی صلاحیتوں سے فائدہ پہنچانے اور اُن کی صلاحتیوں سے فائدہ
حاصل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔
ادب میں قدامت پسندی پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ ’’
بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہماری شاعرانہ اور افسانوی روایات بھی اس قدر کمزور
ہیں کہ اْن کا بین الاقوامی ادب میں کوئی خاص مقام نہیں ہے‘‘ اْن کے مطابق
کسی بھی ادب میں تخلیقات کا معیارآفاقی ہونی چاہیے تاکہ اْن کو عالمی ادب
کے معیار پر پرکھا جاسکے۔اْن فرسودہ اور دقیانوسی خیالات سے گریز کرنا
چاہیے جن کو ماضی میں باربار دہرایا جاچکا ہے۔دنیا میں نئے افکاراور نظریات
سامنے آچکے ہیں اور ہم ابھی تک رزمیہ اور بزمیہ خیالات کے ذہنی غلامی کے
اسیر ہیں۔ اسی حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’’ ہمارے ہاں اکثرشعراء انہی
موضوعات کو بار بار دہراتے ہیں کہ جو قدیم شعراء پہلے سے کہہ چکے ہیں۔ ابھی
تک وہ تشبیہات و استعارے ہیں کہ جن کا قدیم زمانے میں استعمال ہوتاتھا۔
اگرچہ معاشرہ میں کافی تبدیلیاں آگئی ہیں مگر اب تک تیر و نشتر، کمان و
نیزہ ہمارے ہاں استعمال ہوتے ہیں۔ اگر چہ اب محبوب سامنے آگیا ہے مگر اب تک
ہمارا شاعر اس کی جھلک دیکھنے کے لیے بے چین ہے‘‘۔
معاشرتی پسماندگی اور زوال پزیری کے خاتمے کے حوالے سے وہ روشن خیال
دانشوروں کے افکار کواہمیت دینے پر زور دیتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی
کا راز معاشرے میں موجود دانشور طبقہ کی افکار کی پیروی پر منحصر ہے اگر
اْن کے افکار کو اہمیت نہ دی گئی تو معاشرتی پسماندگی کاخاتمہ ممکن نہیں وہ
لکھتے ہیں کہ’’ پسماندہ یا زوال پذیرمعاشروں میں ایسے لوگوں کی کافی تعداد
ہوتی ہے جو کہ مرض کی صحیح تشخیص کرکے اس کی دوا تجویز کرسکتے ہیں لیکن
حیرت کی بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے دانشمندانہ افکار کا کوئی اثرا نہیں ہوتا
اور معاشرہ اسی طرح سے پسماندگی میں گرتا چلاجاتاہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ
پسماندگی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ہے معاشرے اس کی گہرائی میں گرتے چلے
جاتے ہیں‘‘۔اْن کے مطابق کسی بھی پسماندہ معاشرے کی دوبارہ ترقی پذیرہونے
کے بہت کم امکان موجود ہوتے ہیں۔ کیونکہ معاشرتی ترقی کا انحصار ہنر مند
اور پیشہ ورانہ لوگوں پر ہوتاہے۔ پسماندہ معاشروں میں جب ہنر مند اور قابل
افرادی قوت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا وہ جب کسی پسماندہ معاشرے
میں اپنی روشن مستقبل کو تاریکی میں گرتے دیکھتے ہیں تو اسی اثنا میں وہ
کسی ایسے معاشرے کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کی صلاحیتوں کی قدر ہوسکے اور اْن
کو روشن مستقبل کے امکانات نظر آسکیں۔جہاں رہ کر وہ اپنی ذہانت اور
صلاحیتوں کو تقویت دے سکیں۔ اْن کا کہنا ہے کہ’’ یہ سوال بھی ذہن میں آتاہے
کہ جب کوئی معاشرہ ایک مرتبہ پسماندہ ہوجائے تو کیا وہ ہمیشہ اسی حالت میں
رہتا ہے یا اسے اس دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ مل جاتاہے؟ کسی بھی معاشرے
کے پسماندہ ہونے کے بعد دوبارہ سے ابھرنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
کیونکہ پسماندہ معاشروں میں جو ذہین اور باصلاحیت افراد ہوتے ہیں یا پیشہ
ور لوگ ہوتے ہیں۔ اْن کے لیے اْس معاشرے میں کوئی جگہ باقی نہیں رہتی ہے۔
اسی لیے وہ اْن معاشروں میں اپنی جگہ ڈھونڈتے ہیں کہ جہاں وہ اپنی ذہانت
اور تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرسکیں۔ چنانچہ تیسری دنیا کے ملکوں سے آج
سائنسدان، اساتذہ اور ٹیکنالوجی کے ماہرین مغرب کی ترقی یافتہ ملکوں میں
جارہے ہیں کہ جہاں ان کی ضرورت ہے۔ اور جہاں وہ اپنی ذہانت کو استعمال
کرسکتے ہیں، اسی وجہ سے ترقی شدہ اور زوال پذیریا پسماندہ معاشرے میں فرق
بڑھتا جارہاہے۔ اس صورت حال میں پسماندہ ملکوں کے لیے اس صورت حال سے
نکلنابہت مشکل ہے‘‘
ڈاکٹر مبارک علی کے روشن افکارکے مطابق کسی بھی معاشرے میں ان افراد ی قوت
کی اشد ضرورت ہے جو معاشرے کی ترقی اور تعمیر میں کرداراداکرنے کے اہل ہیں۔
اور ہر فردکو اپنی صلاحیتیں اپنے معاشرے کی ترقی پر وقف کرنی چاہیں۔ اور
معاشرے پر یہ لازم ہے کہ وہ ان ہنرمند اور روشن خیال دانشور وں کے نظریات
اور افکارکی پیروی کو یقینی بنائے تاکہ معاشرہ پسماندگی سے نکل کر ترقی کی
جانب گامزن ہوسکے۔ ان کے مطابق نئے سائنسی اور علمی نظریات کی پرچاراور
پیروی کرکے ان پرانے اور فرسودے خیالات جو کسی بھی صورت ٹیکنالوجی کے جدید
دور میں معاشرتی ترقی کی ضامن نہیں ہوسکتے ترک کرنے چاہیں۔ |
|