پنجاب اسمبلی میں گذشتہ روز ایک
ن لیگی خاتون رکن اسمبلی سلمہ بٹ نے اپنے مخالف گروپ کے رکن اسمبلی کے منہ
پر تھپڑ جڑدیا جبکہ چند روز قبل سمندری سے ایک اور لیگی رکن اسمبلی راؤ
کاشف نے ہسپتال میں ڈیوٹی پر بیٹھے ہوئے ایک ڈاکٹر کو تھپڑ دے مارا ،اسی
دوران حصول انصاف کے لیے جڑا نوالہ سے آنے والی 30سالہ فرزانہ کو انصاف کی
دہلیز پر ہی اسکے بھائیوں اور والد نے اینٹیں مار مار کر مار دیا اور ہمارے
شیر بہادر پولیس کے جوان اس سارے واقعہ کو کسی فلم کی طرح دیکھتے رہے۔
ہم اورہمارا معاشرہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جب اور
جہاں موقعہ ملتا ہے ہم ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں بچوں کے
لیے مثالی انکے والدین اور اساتذہ ہوتے ہیں جبکہ قوم کے لیے مثالی انکے
لیڈر ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر آنے والی نسلیں اپنی راہ کا تعین کرتی ہیں مگر
ہمارے معاشرہ میں عدم برداشت اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ معمولی سے معمولی بات
پر بھی کسی کی جان لینا چند منٹوں کا کھیل ہے اور پھر ایسے گھناؤنے کام پر
ہم فخر بھی محسوس کرتے ہیں ملک میں جاری دہشت گردی کے کھیل کو ہی دیکھ لیں
کہ ایک طرف بے دردری سے معصوم انسانوں کی گردنیں کاٹی جارہی ہیں تو دوسری
طرف وہی درندے دندناتے ہوئے بڑے فخر سے اپنے اس گھٹیاکام کی ذمہ داری قبول
کررہے ہوتے ہیں جہاں قتل کرنے جیسا کام کھیل بن چکا ہووہاں مار کٹائی کی
کیا حیثیت ہو گی اور جن سے ہماری قوم نے رہنمائی لینی ہے اور جن کے نقش قدم
پر چل کر ہماری آنے والی نسلوں نے اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے انکے مکروہ
کارناموں کی وجہ سے نہ صرف ہمارا معاشرہ ڈوب رہا ہے بلکہ ہمارا ملک ترقی کی
بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہے ملک کا کوئی ادارہ ان خرابیوں کو درست نہیں
کرسکتا کیونکہ ہر ادارے میں بیٹھے ہوئے سفارشی اور کرپٹ افسران نے ملک وقوم
کا بیڑہ غرق کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور یہ ٹھیکے دار بھی ہمارے دوسرے
ٹھیکداروں کی طرح پرچی اور کمیشن پر یقین رکھتے ہیں جو کسی بھی تعمیرات کا
ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے رکن اسمبلی کو اسکا حصہ دیتے ہیں اسکے
بعد اسکی چٹ لیکر متعلقہ ایکسیئن کے پاس جاتے ہیں اسے اسکا حصہ دیکر کسی
بھی شہر میں آنے والے ترقیاتی کاموں کی بندر بانٹ کرلی جاتی ہے اور پھر
پورا محکمہ اس کام میں حصہ دار بن جاتا ہے جیسے یہ ملک قائد اعظم اور غریب
عوام نے نہیں بلکہ انکے باپ داد نے بنایا ہوپاکستان کی خوشحالی کوگدھوں کی
طرح نوچ نوچ کر کھانے والے یہ سرکاری افسران لوٹ لوٹ کرملک کی جڑیں تو
کھوکھلی کرہی چکے ہیں اب دیمک کی طرح یہ لٹیرے ملک کی جڑوں کو بھی کھا رہے
ہیں یہی وجہ ہے کہ پوری قوم اخلاقی پستی کا شکار ہو چکی ہے لوٹ مار اور عدم
برداشت کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے جس کے پاس ٹیکس چوری اور فراڈ کا پیسہ ہو
گا اسے معاشرہ میں باعزت مقام دیدیا جاتا ہے بعض لوگ ہوتے ہیں کہ جو لوٹ
مار کر کے صبر شکر کرلیتے ہیں پہلے ڈاکو تھے اور جب اچھی خاصی رقم اکٹھی
کرلی تو پھر اچھے کام بھی شروع کردیتے ہیں جبکہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جو
لوٹ مار کو اپنا مشن بنا لیتے ہیں پہلے اپنے آپ کو خوشحال کرتے ہیں پھر
اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بناتے ہیں اسکے بعد اپنی آنے والی نسلوں کو بھی
ناقابل تسخیر بنانے میں لگ جاتے ہیں ایسے لوگ نہ صرف ہمارے لیے خطرناک ہیں
بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے بھی دشمن ہیں مگر جو پہلے والی قسم ہے جو
ڈاکہ زنی سے اس قابل ہوگئے ہیں کہ انہیں روزگار کی فکر نہیں رہی اور ان کے
اندر کچھ نہ کچھ انسانیت باقی رہی اور انہوں نے ملک وقوم کے لیے اچھا سوچا
ہم انہیں پھر بھی اپنا محسن سمجھتے ہیں انہی محسنوں میں ایک جناب خواجہ سعد
رفیق بھی ہیں جنہوں نے دن رات کوشش کرکے محکمہ ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا
کردیا ان سے پہلے ہمارے ڈاکو نما حکمرانوں نے پی آئی اے اور کراچی اسٹیل مل
کی طرح ریلوے کا بھی خانہ خراب کررکھا تھا کبھی ٹرین ساہیوال جا کر بند ہو
جاتی تھی تو کبھی اقبال نگر ریلوے اسٹیشن سے جانے سے انکار کردیتی تھی مگر
اب اس محکمہ میں کچھ بہتری آچکی ہے وقت پر ٹرین چلتی ہے اور وقت پر ہی پہنچ
جاتی ہے یہ صرف اکیلے خواجہ سعد رفیق کا کام نہیں بلکہ ایسے افراد کا کام
ہے جو اس محکمہ کو تباہی سے بچانا چاہتے تھے مگر بات پھر وہی ہے کہ لیڈر شپ
اچھی ہو تو سب اسکی تقلید کرتے ہیں اگر اسمبلی کے اندر اور باہر ایک دوسرے
پر تھپڑ برسائے جارہے ہوں اور عدالتوں کے باہر والدین اپنے بچوں کے
سراینٹوں سے کچل رہے ہوں تو پھر ہماری آنے والی نسل بھی اپنے لیڈروں اور
بڑوں کے نقش قدم پر ہی چلے گی خدارا لوٹ مار کو اب غنیمت جانیں اور ملک کی
تقدیر سے کھیلنا بند کرکے ہمیں جینے دیں عزت اور سکون سے ہمیں اس کے علاوہ
اور کچھ نہیں چاہیے جو آپ نے لوٹ لیا آپ کو مبارک جتنا ہم نے لٹا دیا وہ
ہمیں برداشت مگر اب مزید برداشت نہیں کیونکہ اب ہم اپنوں کے ہی سر کچلنا
شروع ہو گئے ہیں۔ |