لَپّو آٹھ بہن بھائیوں میں سے
ایک تھا۔یہ اپنے خاندان کے علاوہ معاشرے میں چور، آوارہ،لفنگاہ بدم
تھا۔غربت اورمفلسی کی وجہ سے سب بہن بھائی تقریباً تعلیم سے دور تھے ۔ان کا
والد محنت مزدوری کر کے دس افراد پر مشتمل خاندان کا پیٹ پالتا تھا۔لَپّو
کے باقی بھائی بھی مزدوری وغیرہ کر تے مگر کوئی مستقل آمدن نہ تھی،کبھی کام
مل گیا تو ٹھیک ورنہ گھر میں ہی سوئے رہتے ،لَپّوو اپنی آوارگی کی وجہ سے
اپنے گھر والوں کے لئے بھی پریشانی کا باعث تھا آئے روز کوئی نہ کوئی نیا
ایشو ہوتا جو اس کے نام سے منسوب ہوتا ۔چھوٹی موٹی چوریاں کرنا تو اس کا
معمول تھا جن کی چوریاں ہوتیں وہ سمجھ تو جاتے کہ ہماری چوری لَپّوُّ نے کی
مگر کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے وہ الزام ہی لگاتے یا پھر شک کی حد تک ہی
رہتے ،ایک دن کی بات ہے لَپّو نے اپنی اوقات سے بڑی چوری کر لی اس نے کسی
کے گھر سے نقدی اور زیورات وغیرہ چوری کر لئے۔ حسب روایت سب کو لَپّو پر ہی
شک تھا اور کچھ اشارے بھی ایسے ملے کہ ان سے یہ پتہ چلا کہ یہ کام اس نے ہی
کیا۔ اسی دن اس کے گاؤں میں ایک فوتگی بھی ہو گئی گاؤں کے سب لوگ جنازے پر
جمع تھے وہاں پر چوری کی بات آگ کی طرح پھیل گئی اور پھر لوگ طرح طرح کی
رائے دینے لگے، کچھ لوگوں نے لَپّو کے گھر چھاپا مارہ اور چوری شدہ سامان
میں سے کچھ چیزیں برآمد کر لیں جس سے وہ شک یقین میں بدل گیا، گاؤں کا نظام
شہروں سے مختلف ہونے کی وجہ سے لوگوں نے لپُّوکے خاندان کو بولا کر جرگہ
بیٹھایا ، چوری ثابت ہونے پر ماضی میں ہونے والی چوریاں بھی سامنے آگئیں،سب
نے مل کر کہا کہ اس کا کوئی مستقل فیصلہ ہونا چاہیے اگر اس چیز کا سدباب نہ
کیا گیا تو کل یہ ایک گروپ کی شکل میں لوگوں کے لئے عذاب بن جائے گا، اگر
آج اس کو سزا نہ دی گئی تو باقی بچے بھی خراب ہو سکتے ہیں۔کسی نے کہا کہ ان
کے گھر کو آگ لگا دیتے ہیں،کسی نے کہا اس کو گاؤں سے نکالا جائے ،کسی نے
پولیس کے حوالے کرنے کا مشورہ دیا ،کسی نے بھاری جرمانہ کرنے کا کہا،کسی نے
اس کے خاندان سے بائیکاٹ کرنے پر زور دیا،جرگہ میں بیٹھے لوگوں نے اپنی
اپنی رائے دی ۔لَپّو کے گھر والے شرم سے اپنی نگائیں جھکائے بیٹھے تھے۔گاؤں
والوں کا فیصلہ ماننے کے سوا ان کے پاس کوئی حل نہ تھا لَپّو بھی اس جرگے
میں پتھر بنا یہ سب کچھ سن ،اور اپنے فائنل فیصلے کے انتظار میں تھااسکا شک
تھا کہ اسے پولیس کے حوالے کر کے جیل بھجوا دیا جائے گا ،اس جرگے میں مختلف
خیالات رکھنے والے لوگوں کے علاوہ گاؤں کے امام اور صاحب حیثیت مولوی مدرسے
کے خطیب صاحب بھی بیٹھے تھے جب گاؤں کے معتبر لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ
لَپّو سے چوری شدہ سامان واپس لیکر اس کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے ۔ تو
امام صاحب نے اجازت چاہی اور کہا کہ میں آپ کے فیصلے کی قدر کرتا ہوں مگر
میں سوچتا ہوں کے یہ تھانے یا جیل جا کر کتنی سزا کاٹے گا۔ چھ ماہ ایک سال،
پھر یہ رہا ہو جائے گا جب یہ جیل سے سزا کاٹ کے واپس آئے گا تو یہ نڈر،بے
خوف،اور خطرناک قسم کا ڈاکو بد معاشک کہلائے گا ۔ اس کو کسی تھانے جیل یا
سزا سے کوئی ڈر نہیں ہو گا اور یہ بھی آپ سب جانتے ہیں کہ تھانے یا جیلیں
سزائیں نہیں دیتیں بلکہ پروفیشنل مجرم بنا تیں ہیں۔ آج تک کوئی مجرم وہاں
سے انسان تو دور کی بات توبہ کر کے بھی واپس نہیں آیا بلکہ تھانے ،جیلیں تو
مجرموں کی اماج گاہیں ہیں اس لئے آپ لَپّو کو میرے حوالے کر کے مجھے ایک
موقع دیں اگر میری کوشش کے بعد بھی یہ ایسا رہا تو پھر جو سزا آپ نے دینی
ہوئی دینا جرگے میں کچھ لوگ سمجھداراور غیر جابندار بھی تھے وہ اس بات کو
سمجھ گئے اور کچھ لوگ امام صاحب کے احترام میں خاموش رہے، اور بات مان لی۔
امام صاحب نے لَپّو کو اپنے گھر لے گئے کچھ سمجھایا اور پھر اپنے پاس سے اس
کے گھر کے خرچے کا ذمہ اٹھایا ا لَپّو کو چار ماہ کا خرچہ دے کر تبلیغ
والوں کے ساتھ بھیج دیا گاؤں والوں کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔وقت گزرتا
رہا ۔چار ماہ بعد لَپّو کی واپسی ہوئی تواس کی دنیا بدلی ہوئی تھی اس کی
سوچ، خیال،شخصیت سب کچھ حیرت انگیز طور پر تبدیل تھا لَپّو نے جمعہ مسجد
میں اپنے گاؤں والوں سے سب سے پہلے معافی مانگی اور پھرجو سیکھاوہ بتایا
مسجد میں بیٹھے تمام نمازی آبدیدہ ہو گئے وہ لَپّو جو کل تک ،چور، آوارہ،
لفنگاہ،بدنام مشہور تھا آج بھائی چارے ،اخلاق، انسانیت،دیانت حلال روزی کا
درس دیتا ہے اور ایسے ایسے واقعات سناتا ہے کہ لوگ حیران ہو جاتے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اﷲ جب چاہے جس کو چاہے ہدایت دے، وہ ایک نقطے سے
بھی انسان کی دنیا بدل سکتا ہے ۔اﷲ جس کو ہدایت دیتا ہے پھر اسے کوئی گمراہ
نہیں کر سکتا ،اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت دیتے ہیں جن سے لوگ سبق
سیکھتے ہیں جن کے بارے میں کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا کہ یہ بھی کبھی
انسان بننے گا جس کو سب نفرت اور حقارت سے دیکھتے ہوں راہِ ہدایت پانے والے
کسی خاص کردار کے مالک نہیں ہوتے۔اگر لپُّو کو پولیس کے حوالے کر دیا جاتا
تو یقناً بڑا جرائم پیشہ خطرناک مجرم بن کے آتا ۔یہ بات روزے روشن کی طرح
عیاں ہے کہ آج تک کسی نے جیلوں سے سبق نہیں سیکھابلکہ ایک بار جیل کی ہوا
کھانے والا خود کو لائنسنس یافتہ مجرم سمجھتا ہے ۔ہاں یہ بات کہنا اور کرنا
مشکل ہے کہ سب مجرموں کو اپنے پاس سے خرچہ دے کران کو اسلامی تعلیمات دی
جائیں۔لیکن یہ ممکن ہے اور ایسا ہو بھی سکتا ہے کہ تھانوں میں جیلوں میں
ایساانتظام کیا جائے جن میں صاحب علم اور صاحب اثر لوگ لکچر دیں،اسلامی
تعلیم دی جائے ، مجرموں کو ہدایت کے راستے پر لگائیں ان کو زندگی کا اصل
مقصد بتائیں تو عین ممکن ہے کہ مجرم ،پیشہ وار مجرم بن کر آنے کے بجائے
انسان بن کر یا اپنے آپ کو تبدیل کر کے واپس آسکتا ہے ۔یہ کام کوئی عام
آدمی،گروپ،این جی اوز،یا پھر کوئی ایک ادارہ نہیں کر سکتا یہ کام پولیس کا
محکمہ بھی نہیں کر سکتا یہ کام حکومت اور صاحب اقتداروالے کر سکتے ہیں وہ
تمام جیلوں میں صرف قرآن پڑھانے کی سہولت نہ دیں بلکہ با قائدہ اجتماعی درس
و تدریس کا بند وبست کریں سو فیصد نہ سہی ستر اسی فیصد مجرم بھی لپُّو کی
طرح تبدیل ہو گئے تو بہت بڑی کامیابی ہے ،سالوں کی سزا پانے والے مجرم
جیلوں سے عالم فاضل بن کر نکل سکتے ہیں۔جیلیں تو عالم کو شطان بنا دیتی ہیں
شطان کو کیا بنائیں گی۔اس لئے انسانیت کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ تھانوں
جیلوں میں درس و تدریس کا بندوبست ہونا چاہیے۔ |