الحمدﷲ! مورخہ ۳،۲ جون ۲۰۱۴ء
بروز پیر ،منگل مالیگاؤں کو یہ اعزاز حاصل ہو رہا ہے کہ چالیس برسوں کے بعد
دنیائے اسلام کی ممتاز شخصیات ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے عہدیداران
ومعزز اراکین تحفظ قانون شریعت کا نفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لا رہے
ہیں۔اس اجلاس میں ملک کے مایہ ناز علماء و دانشوران قوم ’’مسلمانوں کو
درپیش چیلنجز اور ان کا حل‘‘عنوان پر حاضرین سے خطاب فرمائیں گے۔
’مسلم پرسنل لاء‘قیام اور پسِ منظر:
آزاد ہندوستان کے دستور میں اقلیتوں کو مذہب پر عقیدہ ، مذہب پر عمل مذہب
کی تبلیغ کی اجازت دی گئی ہے۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد بعض حلقوں سے اس بات
کی ناروا کوشش ہونے لگی کہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی تشخص سے محروم کردیا
جائے۔ اسی پس منظر میں ۱۹۷۲ء میں آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ کی تشکیل عمل میں
آئی۔ (مسلم پرسنل لاء بورڈ کام اور پیام صفحہ نمبر : ۰۱ مرتب: سید الیاس
ہاشمی ندوی )
آزادی وطن کے بعد ہندوستان نے جو مختلف مذاہب ،قوموں اور تہذیبوں کا گہوارہ
ہے جو جمہوریت کو طرز حکمرانی کے لیے منتخب کیا ، دستور سازوں نے سیکولرزم
کی اساس پر دستور کو مدوّن کیا ،عقیدہ وضمیر کی آزادی ، مذہب پر عمل اور اس
کی تبلیغ کی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی۔ اور یہ ہندوستان
جیسے ہمہ مذہبی ملک کے لئے ناگزیر بھی تھا۔
لیکن ان تمام پیش بندیوں کے باوجو د دستور کے بعض لچک دار دفعیات کا سہارا
لے کر کچھ عرصے کے بعد مسلمانوں کو جو یہاں سب سے بڑی اقلیت ہیں اکثریتی
دھارے میں ضم کرلینے کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ دھیرے دھیرے اس صورت حال میں
تشویش ناک حد تک اضافہ ہوگیا۔ یہاں تک کہ آئینی اداروں سے بھی ان دھمکیوں
کی سمت میں عمل پیش رفت کے ایسے احکامات صادر ہونا شروع ہوئے جو دستور کی
رو سے دی گئی مذہبی آزادی میں صریح مداخلت اور اقلیتی حقوق کو سلوب کرنے
والے تھے۔
ان نازک حالات میں امت مسلمہ کے دوراندیش صاحبِ بصیرت علماء نے ملّی تشخص
کو بہالے جانے والے اس سیلاب پر بند باندھنے کی منظم کوشش شروع کردی ،حضرت
مولانا قاری محمد طیب صاحب اور حضرت مولانا منت اﷲ رحمانی۔ اﷲ ان کی تربتوں
کو منور رکھے۔ پورے ملک کے طول وعرض میں عوامی شعور بیدار کرنا شروع کیا ،
دیکھتے ہی دیکھتے ملت کے مختلف مکاتب فکرومسالک کے نمائندہ افراد جنہیں خو
دبھی مسئلہ کی سنگینی کا احساس تھا ان حضرات کی دعوت پر اس کارواں میں شامل
ہوتے گئے۔ پھر ۱۹۷۲ء کے اواخر میں عروس البلاد ممبئی میں اسی موضوع پر عظیم
الشان کانفرنس منعقد ہوئی اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر مسلمانوں کومتحد کرکے
ایک وفاق تشکیل دیا گیا۔ جسے دنیا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نام سے
جانتی ہے۔
بورڈ کی قیادت ہمیشہ ان بزرگوں نے کی ہے جو اخلاص وللّٰہیت کے ساتھ ساتھ
زمانہ آگہی اور مومنانہ فراست میں بھی نمایاں رہے ہیں اور جن کی اسلام کی
ساتھ وفاداری او رثابت قدمی پر پوری ملت اسلامیہ ہند کو اعتماد واعتبار ہے
، چنانچہ امیر شریعت حضرت مولانا منت اﷲ صاحب رحمانی رحمۃ اﷲ علیہ ، حکیم
الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب رحمۃ اﷲ علیہ ، مفکر اسلام حضرت مولانا
ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اﷲ علیہ اور فقید الامت حضرت مولانا قاضی مجاہد
الاسلام قاسمی رحمۃ اﷲ علیہ نے مختلف مراحل میں اس قافلہ کی سالاری کی ہے
اور اب تحفظ شریعت کے اس عظیم کارواں کی قیادت مخدومی ومطاعی حضرت مولانا
سید محمد رابع حسنی ندوی متعنا اﷲ بطول حیاتہ کے ہاتھوں میں ہے اور یہ حسنِ
اتفاق ہے کہ آپ اپنے نام کی مناسبت سے بورڈ کے حدودِ اربع ہیں۔ (بحوالہ
سابق صفحہ نمبر : ۱۱)
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں مولانا کے زمانہ صدارت کو ابھی چند سال
ہوئے ہیں لیکن اس مختصر عرصہ میں بورڈ نے کئی نمایاں کام کئے ہیں۔ بابری
مسجد کے سلسلہ میں کاوشوں کے تسلسل ، معیاری نکاح نامہ کی تیاری ومنظوری ،
دارالقضاء کے نظام کی توسیع ، لیگل سیل کی تجدید ، قانون دانوں ، دانشوروں
، اور غیر مسلموں کو احکام شریعت کی تفہیم کے لیے مستقل کمیٹی کا قیام او
رکاوشیں نیز فرقہ پرست گروہوں کی طرف سے ہونے والی مختلف یلغاروں کا خوش
اسلوبی اور مثبت طریقے پر جواب دینا اور بورڈ کے سلسلہ میں امت میں تفریق
پیدا کرنے کی اروا کوشش کا ازالہ وغیرہ ، ایسے کام ہیں جنہیں فراموش نہیں
کیا جاسکتا۔ (بحوالہ سابق صفحہ نمبر : ۲۱)
ایک انٹرویومیں ’’ مسلم پر سنل لاء بورڈ کی اولین ترجیحات کیا ہوں گی ؟ کے
جواب میں حضرت مولانا رابع صاحب حسنی ندوی حفظہ اﷲ فرماتے ہیں کہ بورڈ کی
یہ کوشش ہوگی کہ ملت اسلامیہ ہند کو اسلامی زندگی گذارنے اور شریعت کی
پابندی کرنے کی طرف راغب کیا جائے ، اسلامی تعلیمات کی پیروی کا جذبہ پروان
چڑھایا جائے اور جو لوگ شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان پر سماجی دباؤ
ڈالنے کی کوشش کی جائے ، کیونکہ سماج آدمی کو غلط کاموں سے روکنے کا ایک
ذریعہ ہے۔ اور ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء
بورڈ نے شریعت اسلامی کے تحفظ کواپنا مقصود بنایا ہے۔
شریعت اسلامی کے کئے پہلو ہیں جس کا تحفظ کیا جائے گا او اس میں مداخلت کو
ہم روکیں گے مگر ہم جمہوری طریقہ سے اور دستور کے حوالہ سے اسے روکیں گے
چونکہ دستور ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی شریعت پر عمل کریں ،
اگر ہماری شریعت میں کوئی مداخلت ہوتی ہے تو وہ حقیقت میں دستور کے خلاف
ہے۔ (بحوالہ سابق صفحہ نمبر : ۴۱)
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں کہ :
’’ تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے اندر رہ جانے والے مسلمانوں کو جن مصائب
اور صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑا ان میں جان ومال وآبرو کے زیاں کے
علاوہ سب سے زیادہ روح فرسا وار پیشان کن ان کے دین ومذہب پر عمل کی آزادی
سے محرومی کا خطرہ رہا ہے کیونکہ ہندو احیاء پرستی (ہندتو) کی جارحانہ
تحریکوں نے پورے ملک کو بھگوا رنگ میں رنگا دینے بلکہ غرق کردینے او
رمسلمانوں کا تشخص ختم کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے جس کی لے کبھی تیز ہوجاتی
ہے او رکبھی دھیمی (غالباً یہ زیروبم بھی ان کی اپنی مصلحت کے تقاضوں پر
مبنی ہوتا ہے ) رواں صدی کے آٹھویں دہے میں نہایت زور وشور کے ساتھ جب یہ
تحریک چلائی گئی تو اس وقت ملت اسلامیہ کے بیدار مغز صاحب بصیرت افراد۔ جن
میں علماء سرفہرست تھے نے ’’ مسلم پرسنل لاء بورڈ ‘‘ کی تشکیل کی ، جس کے
قیام ومساعی سے کسی نہ کسی درجہ میں اس زور میں کمی آگئی تھی ، مگر پھر بھی
بعض ہندو احیاء پرست جماعتوں کے سیاسی طور پر طاقتور بن جانے کی وجہ سے بے
شمار خطرات ، امکانات اور اندیشوں پر مشتمل عائلی قوانین (مسلم پرسنل لا )
پر کھلم کھلا نہ صرف زبانی وتحریری حملے شروع کردئیے گئی بلکہ مسلم پرسنل
لا میں ترمیم کے اندر ۱۹۹۵ء میں پاس کئے گئے چند بل اس کا نمونہ ہیں۔ علاوہ
ازیں ’’ مسلم پرسنل لا‘‘ ( جو شریعت کے قوانین کا بہت تھوڑا سا حصہ ہے ) کو
ختم کرنے کے دانستہ یا نادانستہ اقدامات پائی کورٹوں اور سپریم کورٹوں کے
ججوں کے بعض فیصلوں میں بھی صاف نظر آتے ہیں۔
یہ صورت حال او ربھی زیادہ پریشان کن ہے ، مزید برآں یہ کہ مختلف پلیٹ
فارموں سے آئے دن ’’ یکساں سول کوڈ ‘‘ نافذ کرنے کی آوازیں اٹھتی رہی یا
اٹھائی جاتی رہتی ہیں ا س حاصل بھی مسلم پرسنل لا ختم کرنے کی کوشش کے
سوااور کچھ نہیں ہے۔ ( مجموعہ قوانین اسلامی صفحہ نمبر ۷۲ مرتب آل انڈیا
مسلم پرسنل لا بورڈ )
حضرت مولانا ؒ آگے لکھتے ہیں کہ :
مسلمانوں کو جب اس کا خطرہ محسوس ہونے لگا کہ مسلم پرسنل لا ختم کرنے کے
لئے حکومت اور ہندو قوم پر تول رہی ہے تو مسلمانوں بیدار مغز لوگوں نے
جمہوری ملک میں جمہوری صراف پر اس کے سد باب کی کوشش تیز کیں۔ اس سلسہ میں
دسمبر ۱۹۷۲ء میں ہندوستان کے مشہور شہر ممبئی میں ایک عظیم الشان کنونشن
حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ مہتمم دارالعلوم دیو بند کی صدارت میں
کیا۔ کیونکہ موصوف ہی نے اسے کوئی ایک سال قبل پہلے قدم کے طور پر
دارالعلوم دیوبند میں ایک مشاورتی اجتماع بلایا تھا جس میں ملک کے نامور
علماء وفضلاء اور دانشوروں کو مدعو کیا تھا ، اسی اجتماع میں ممبئی کے اندر
کنونشن منعقد کرنے کی تجویز منظور ہوئی۔
اس کنونشن کا فائدہ صاف طور پر ظاہر ہوا کہ حکومت کے اس جانب بڑھتے قدم رک
گئے ، یا کم ازکم یہ ہوا کہ وہ محتاط ہوگئی اور اس کے لہجہ میں تبدیلی آئی۔
اسی کنونشن کی قرارداد کے مطابق اگلے سال ’’ مسلم پرسنل لا بورڈ ‘‘ کا قیام
عمل میں آیا جس کے پہلے صدر حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ بنائے گئے ،
او رجنرل سکریٹری کا عہدہ حضرت مولانا منت اﷲ صاحب رحمانیؒ امیر شریعت بہار
واڑیسہ کو سونپا گیا ، جنہوں نے اپنی بیدار بغزی ، اولوالعزمی ، دور اندیشی
اور جرأت سے ہر نازک موقع پر بورڈ کی (اور اس کے توسط سے مسلمانوں کا
اعتماد قائم ہوا اور بورڈ کی آواز۔ ہر حلقہ میں حتیٰ کہ حکومت میں بھی
باوزن سمجھی جانے لگی۔
اسی دوران بد قسمتی سے ۱۹۸۵ء میں شاہ بانو مقدمہ کا سپریم کورٹ نے ایسا
فیصلہ کیا جس سے ’’ مسلم پرسنل لا‘‘ پر کھلی زد پڑی او راس کے ختم ہونے کی
راہ ہموار ہوتی نظر آنے لگی۔ اس پر تمام مسلمانان ہند بجا طور سے بے چین
ہوگئے اور بورڈ نے اپنے جنرل سکریٹری اور صدرکی قیادت میں فیصلہ کے اثرات
زائل کرنے کی بھر پور سعی کی ، اس سلسلہ میں اس زمانہ کی حکومت کے ذمہ
داروں۔ جس میں وزیر اعظم راجیوگاندھی بھی تھے سے بار بار ملاقاتیں کیں
بالآخر خدا کی مدد او راس کے فضل سے بورڈ کو اس میں فی الجملہ کامیابی ہوئی
کہ پارلیمنٹ نے۱۹۸۶ء میں مسلم خواتین کے لیے ایک نیا قانون پاس کردیا جس کے
ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مسلم پرسنل لا پر جو زد پڑی تھی اس کی پوری
تو نہیں البتہ ایک حد تک تلافی ہوگئی۔ (بحوالہ سابق صفحہ نمبر : ۳۰)
اسی دوران یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ’’ مسلم پرسنل لا ‘ ‘ آج کل ہندوستان میں
شریعت کے جن قوانین سے عبارت ہے ان سب کو دفعہ دار مرتب (codify) کردیاجائے
تاکہ ملکی عدالتیں فیصلوں کے وقت اسی مرتب شدہ مجوعہ کو بنیاد بنائیں ، کہ
پھر فیصلوں میں نادانستہ غلطیاں نہ ہوں۔ یہ کام (دفعہ وار codifyہونا )
نہایت مفید بلکہ ضروری ہونے کے ساتھ بے حد نازک بھی تھا جس کے لیے ایسے
بیدار مغز ، مسیع النظر ، دقیقبیں اور فقہ اسلامی سے گہری واقفیت اور
فقیہانہ مزاج رکھنے والے علماء کی ضرورت تھی جنہیں اس کی نزاکتوں کا پورا
احساس ہو۔ اور اسکے اہل بھی ہوں اور اس کے لیے وقت بھی فارغ کرسکیں ، قحط
الرجال کے اس دور میں ایسے لوگوں کاتلاش کرنے پر بھی ملنا دشوار لگتا تھا ،
مگر خوش قسمتی سے بورڈ جس میں ہندوستان کی مسلمانوں کا گویا عطر آگیا ہے ،
اس کے اندر ہی چند ایسے علماء پر حضرت مولانا منت اﷲ صاحب رحمانی ؒ کی نظر
پڑی اور انہوں نے ہی (مجلس عاملہ کی تجویز پر ) اس عظیم کام کے لیے ایسے
چند علماء کو جمع کیا جو اس کام کے لئے موزوں ترین افراد تھے۔
اس پس منظر میں ہندوستان کے مسلمان اگر اپنے اس پرسنل لا کو باقی رکھنے پر
زور دیں جس کو کہ انگریزوں نے کبھی نہیں چھیڑا اور دستور ساز اسمبلی نے بھی
دیگر اقلیتوں کے ساتھ اس کی آئینی حیثیت برقرار رکھی تو کیا غلط ہے؟
حالانکہ دستور ہند کی ہدایتی دفعات کے جزؤ میں مشترکہ معاشرتی قوانین کا
تذکرہ کرکے مسلم پرسنل لا کے خلاف برادران وطن کے ذہن کو متوجہ رکھنے کی جو
راہ پیدا کردی گئی ہے اسی سے حوصلہ پاکر بعض حلقے جن میں عدلیہ بھی شامل ہے
مسلم پرسنل لاء کے خاتمہ کے لئے سرگرم ہیں اور گذشتہ کچھ عرصہ سے تو ایسے
عناصر کی کوششیں اس حد تک بڑھ گئیں ہیں کہ وہ مسلم پرسنل لا کو ایک غیر
انسانی قانون بالخصوص مسلم خواتین کیلئے ظلم کا پہاڑ باور کرارہے ہیں، بعض
قانون داں بھی اسلامی قوانین سے ناواقفیت کی بناء پر مسلم پرسنل لا کو اپنی
موشگافی کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں اسی طرح عدالتوں سے بھی ایسے فیصلے صادر
ہورہے ہیں جو مسلم پرسنل لاء میں کھلی مداخلت ہیں جبکہ اسلام میں عورت ہرگز
مظلوم نہیں․․!ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جس کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں
او ر ان کا پرسنل لا اس ملک میں اسلامی تہذیب ،تمدن اور ملی تشخص کا واحد
نشانہ ہے اور اسی کی بقا وفنا سے مسلمانوں کے مذہبی امتیازات اور اسلامی
اقدار کی حیات وزیست کا مسئلہ وابستہ ہے کیونکہ دنیا کی جن قوموں نے اپنے
تہذیبی اور معاشرتی امتیازات کو کھودیا یا اپنے مذہب سے رشتہ منقطع کرلیا
وہ دیر سویر مٹادی گئیں اور آج دنیا کے نقشے پر ان کا وجود بھی نظر نہیں
آتا، جس ملک میں مختلف مذاہب اور طرز فکر کے ماننے والے موجود ہوں وہاں کسی
قوم یا اقلیت کے پرسنل لا کو ختم کردینے کا مطلب یہی ہوگا کہ رفتہ رفتہ اس
جماعت کو معاشرتی یکسانیت، ایک دوسرے میں اتنا مدغم کردے کہ وہ اکثریت میں
پوری طرح ضم ہوکر رہ جائے، حالانکہ اسلام کا مسئلہ دوسرے مذاہب اور گروہوں
سے قطعی جدا ہے، دوسرے مذاہب میں بیشتر مذہبی قوانین کی بنیادیں اس رسم
ورواج پر مبنی ہیں جو تبدیل ہوسکتی ہیں لیکن اسلامی قانون جس کی بنیاد وحی
الٰہی اور کتاب وسنت ہے وہ ہمیشہ کیلئے اور ناقابل ترمیم ہے اور اس میں کسی
طرح کی تبدیلی لانا گویا ہندوستان سے اسلامی تہذیب وتمدن کو اکھاڑ پھینکنے
کے مترادف ہوگا۔ جس کی مثال قرطبہ واسبیلیہ، سمر قند وبخاریٰ اور روسی
ترکستان میں آج بھی نظر آتی ہے جہاں مسلمانوں کو ان کی تہذیبی اور مذہبی
شناخت سے محروم کرکے تقریباً مٹادیا گیا ہے۔ |