نبی پاک صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے محبت - ایک فرض٬ ایک قرض
(Andleeb Zuhra, Rawalpindi)
بچہ جونہی جنم لیتا ہے تو ہم مسلمان سب سے پہلے اس کے کانوں میں اذان دیتے
ہیں۔گویا اﷲ کی وحدانیت اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کا اعتراف
ہمارے کانوں میں دنیا کی پہلی آواز نبتی ہے۔ مائیں دودھ پلانے سے پیشتر
درودپاک پڑھتی ہیں، گویا ہماری زبان کے ذائقے میں اور دودھ میں درودپاک کی
آمیزش ہوتی ہے۔جب گفتگو صاف ہوتی ہے تو کلمہ طیبہ سکھایا جاتا ہے۔بسمہ اﷲ
کی رسم میں، آمین کی تقریب میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت شامل کی
جاتی ہے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کا سفر ہماری پیدائش کے وقت شروع
ہوجاتا ہے اور قطرہ قطرہ بن کر خون میں شامل ہوتا رہتا ہے۔اس لیے تو ہر
مسلمان خواہ وہ تکنا ہی گناہگار اور نماز روزے سے کتنا دور ہو وہ کبھی رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت اور نبوت سے روگردانی نہیں کر سکتا، بے
اعتنائی نہیں برت سکتا، وہ مر سکتا ہے، کٹ سکتا ہے لیکن ختم ِ نبوت اور
رسالت پر ایمان اسے ڈگمگا نہیں سکتا۔
اصل بات یہ ہے کہ امتِ مسلمہ اس محبت کا حق کس طرح ادا کرتی ہے۔یہ سب کے
لیے غور طلب سوال ہے؟ ہنگامہ آرائی، تشدد، توڑ پھوڑ سے آپ اپنے مؤقف کی
وضاحت کبھی نہیں کر سکتے، نہ داخلی سطح پر نہ خارجی سطح پر۔ اس لیے اب
مسلمانوں کے احتجاج کی اتنی وقعت نہیں رہی۔ حالانکہ مخالفین کے اعتراضات کا
جواب متحد ہو کر اور مظبوط دلائل سے دینا چاہئے نہ کہ پر تشدد کاروایاں کر
کے۔ذرا سوچئے! کتنے مسلم دانشور اس سلسلے میں مدل جواب دے سکتے ہیں؟
اگر کوئی ملعون گستاخانہ خاکے اور فلم بنانے کی جسارت کرتا ہے۔
کوئی مسلم جدید ٹیکنالوجی اور تعلیم سے بہرہ ور کیوں نہیں جوابی کاروائی کر
سکتا؟ ہم ایسے ہی طریقے سے مؤثر جواب کیوں نہیں دے سکتے؟ ہماری الہامی کتاب
میں ہر بات کا جواب اور اعتراض کا جواب موجود ہے۔اسے پڑھئے، سمجھئے اور پھر
ان دشمنانِ اسلام کا مقابلہ کریں۔ یہ معاملہ عالمی عدالتِ انصاف تک پہنچائے،
اس دلیل کے ساتھ کہ جب اس دنیا میں امن کے قیام کی ضرورت ہے تو کسی بھی
مذہبی شخصیت کو زیرِ بحث بنا کر متنازعہ صورتحال نہ پیدا کی جائے۔
آزادی ٔ رائے کا مقصد انتشار پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے اور دوسروں کے
حقوق کا احترام بھی ہے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تعصب سے بالا تر ہو کر نہ صرف قرآن پاک بلکہ توریت،
زبور اور انجیل کا مطالعہ کیا جائے جس میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد کی
خوش خبری سنائی گئی تھی۔ ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا کیا گیا ہر
فیصلہ، اٹھایا گیا ہر قدم، ہر حکم، ہر فرمان غرضیکہ ہر بات حکم خداوندی کے
مطابق انسانیت کی رہنمائی کے لیے تھا اور اس میں حکمت تھی۔ انکی افادیت سے
انکار ممکن نہیں ہے۔ بس ان پر علم پیرا ہونا چایئے۔دشمنانِ اسلام کا مقصد
ہمادے اذہان میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقام ومرتبہ مشکوک کرنا ہے تو اس
آیت کو اپنے لہو میں شامل کر لو’’ بیشک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی
میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے ۔‘‘
ہر مسلمان خواہ وہ دانشور ہے، لکھاری ہے، طالب علم ہے، سرکاری ملازم ہے،
گھریلو خاتو ن ہے وہ اپنے اپنے وسائل کے مطابق اعتراضات کا جواب دلائل سے
دے تشدد سے نہیں۔ٹیکنالوجی کے استعمال سے دے،محض توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی
سے نہیں، اس سلسلے میں میڈیا بھی اپنا کردار ادا کرے، حکومت بھی اور علمائے
کرام بھی، فرقہ واریت اور تعصب بالاتر ہو کر بھی کیونکہ یہ محبت ہم پر فرض
بھی ہے اور اسی کی ادائیگی قرض بھی۔ |
|