پھر یوں ہوا، انسان درندہ بن گیا۔۔۔ انسانیت کا قتل ہو گیا۔۔۔ وہ بھائی جس
کو لاڈلی ہر سال راکھی کے بندھن میں باند ھا کر تی تاکہ بھائی کی عمر دراز
ہو، بلاؤں سے محفوظ رہے اور بہنوں کی رکھوالی کرے۔۔۔مگر کب انسانیت پر
حیوانیت کا رنگ چڑھ جائے کچھ معلوم نہیں۔ لاڈلی جو راکھی ایک ڈوری اپنے
بھائی کی کلائی پر سالوں سے باندھتی رہی، مگر جب اندر کا حیوان جاگا اسی
بھائی نے لاڈلی کے وجود پر بندھی ڈوریوں کو کھولنا شروع کر دیا۔۔۔ دن ،
رات، گزرتے گئے۔۔۔ بھائی ٹھنڈا کچھا ٹھنڈا گوشت کھاتا رہا۔۔۔ حیوانیت سر
پکڑتی گئی۔۔۔ مگر انسانیت رنگوں میں رنگتی رہی۔آخر کارلاڈلی کا گوشت بد بو
چھوڑنے لگا۔ تو اس نے اس ڈوری سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے میں عافیت
جانی۔۔۔ ایک اور زندگی ختم ہوگئی۔ عزت کو بچاتے بچاتے ذلت کا سامنا کرتے
ہوئے حوا کی بیٹی نے موت کو گلے لگا لیا۔ ایسے واقعات ہمارے گردو نواح میں
آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ مگر ہماری حس ختم ہو چکی ہے،۔ہم نہ تو محسوس کرتے
ہیں، نہ آہ کرتے ہیں، نہ رکتے ہیں بس چلتے چلتے اور چلے جاتے ہیں۔ عورت کو
جو اعلی مقام اسلام نے دیا ہے ۔ اسی مقام کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ آئے
روز زیادتی کیس، اغوہ کیس سامنے آتے رہتے ہیں۔ مگر کسی کے دل میں درد پیدا
نہیں ہوتا، گزشتہ دنوں بھارت کے علاقے اتر پردیش دو لڑکیوں کا ریپ کر کے ان
کی لاشوں کو درخت پر لٹکا دیا گیا۔۔۔، کوئی پوچھنے والانہیں کہ ان لڑکیوں
کا قصور کیا تھا۔کیا یہی قصور تھا کہ انہیں صف نازک پیدا کیا گیا۔۔۔؟ اور
اس نازکی کا فائدہ اٹھا کر انھیں مار دیا گیا ۔۔کیا ہے کوئی ایسا قانون جو
ان حوا کی بیٹیوں کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو عبرت نا ک سزا دلا سکے۔۔۔؟
بھارت پڑوسی ملک جو کہ ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کا اعلان کرتا ہے۔
مگر یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں ایک بیٹی، ایک بہن، ایک ماں کی عزت محفوظ
نہیں۔زیادہ دور نہیں جاتے ہم اپنے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی رہتے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جو کہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا ۔مگر اسی
ملک میں ایک ایسا شرمناک واقعہ ہوا جس سے پوری قوم کا ہی نہیں بلکہ مذہب کا
بھی مذاق اڑایا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے سامنے ایک خاتون کو سنگسار کیا
گیا۔ وہ خاتون ماں جیسا مقام حاصل کرنے کے مرحلے میں قدم رکھ چکی تھی۔ اس
کے پیٹ میں ایک جان اپنی زندگی کا آغاز کر چکی تھی۔ مگر بے رحم زمانہ اور
غیرت بھڑک اٹھی۔ اس خاتون کو ہائی کورٹ کے سامنے پتھر مار کر سر عام قتل کر
نے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے پسند کی شادی کی تھی۔ خاتون کے اس عمل سے باپ
اور بھائیوں نے غیرت کے نا م پر سر عام سنگسار کیا۔ صرف ایک قتل ہی نہیں
بلکہ دو دو جانوں کے قاتل بن گئے، حیرت اس بات کی ہے کہ لاہور جیسے شہر میں
ہزاروں لوگوں کے سامنے قتل عظیم کیا گیا، مگر کسی ایک کے دل میں بھی رحم نہ
آیا۔۔۔ حیرت اس بات کی ہے کہ انصاف کے در پر انصاف کے لیے جانے والی ماں کو
بے دردی سے مار کر انصاف کے منہ پر کالا دھبہ تھوپ دیا گیا۔۔۔ اور جب
پتھروں کی بارش ہو رہی تھی تو غیور پولیس میں سے ایک بھی غیرت مند نوجوان
نے اپنی وردی کا حق ادا نہ کیا۔۔۔ حیرت در حیرت کہ وہ علماء جو میڈیا پر
ہونے والی محاشی پر فتوے لگاتے پھرتے ہیں اس پسند کی شادی پر ان کا علم
کیوں خا موش ہو گیا۔۔۔ حیرت اس بات کی بھی کہ عدالت کے سامنے جب یہ انسانیت
سوز واقعہ ہو رہا تھا تو کالے کوٹ والوں نے اسے کالا عمل کیوں نہ کہا۔۔۔
حیرت اس بات کی ہے کہ وزیر اعلی ،وزیر اعظم کے شہر میں یہ قتل کیا گیا مگر
انھیں کا نوں کان خبر نہ ہوئی، جب برطانیہ نے اس قتل پر دہائی دی تو تب
وزرا کو احساس ہو ا کہ واقعی کچھ غلط ہوا ہے۔ تب کہیں جا کر انھوں نے اس
واقع کا نوٹس لیا اور رپورٹ طلب کر لی۔پروسی ملک کی طرح پاکستان بھی ایٹمی
طاقت ہے اور جمہوریت کا اعلان بھی کرتا ہے ۔مگر پھر وہی سوال کیسی جمہوریت
جہاں ایک بندی کو پسند کی شادی کی اجازت نہیں۔۔۔؟ ہمارا اسلامی ملک معاشرہ
بد ترین اخلاقی گراوٹ کا شکا ر ہور چکا ہے۔ اس کی اصلاح بے حد ضروری ہے ۔
پاکستان پاک۔ستان۔۔۔ رہنے کی پاک جگہ جو کہ دہشت گردی، نفسانفسی، انسانیت
کے قتل کے خون سے گند ی ہو چکی ہے، اس کو پاک کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ اگر
ایسا نہ کیا گیا تو ہر روز ایک فرزانہ سر عام قتل ہو گی۔۔۔
بولنے کو تو ہم جمہوریت اور آزاد ریاست کا بول بولتے ہیں۔ مگر ہم کہاں کے
آزاد ہیں۔۔۔؟ ہم کب آزاد ہیں۔۔۔؟ چلتے ہیں آزاد کشمیر کی جانب کہنے کو تو
کشمیر کا ایسا حصہ جو آزاد کروالیا گیا۔، آزاد خیال، آزاد قوم، اور آزاد
آواز کے مالک لوگ۔۔۔مگر ہم کون سی آزادی کی بات کرتے ہیں۔۔۔؟؟؟ یہاں کی
عورت آزاد نہیں، ہم پرانی روائتوں کے قیدی ہیں، آزاد کشمیر کے لوگ آزاد
نہیں ہیں کیوں آزاد نہیں ہیں اس پر ایک الگ کالم زیر تحریر ہے۔ مگر چند
تحریریں قابل نظر ضروری ہیں۔، آزاد کشمیر کی اسمبلی میں بیٹھی خواتین نے
عورتوں کی فلاح کے لیے کیا کام کیا۔۔۔؟ ملازمت کرنے والی خواتین کی عزت نفس
مجروح کی جاتی ہے،،،، انھیں ہراساں کہا جاتا ہے،،،، مگر آزاد ریاست میں اس
آزادی کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔بھمبر کے گاؤں میں یہی حوا کی بیٹی کو درخت
سے باندھ کر تشدد کا نشانہ بنا یا جاتا ہے اور بات کر تے ہیں آزادی کی۔ وہی
پرانی رسمیں جائیداد کی لالچ میں عورتوں کو مارنا، دھمکانا، پرانے خیالات
کی قید میں آزاد پنچھی۔۔۔بھارت ہو پاکستان یا پھر آزاد کشمیر، المیہ یہی کہ
ہر دور میں عورت کو پامال کیا جاتا ہے۔ گلی ہو ، محلہ ہو، بازار ہو، گھر ہو
یا دفتر ہو، عورت کو ھی لپٹ لپاٹ کر محو گفتگو کیا جاتا ہے۔۔۔اسی سے اخلاق
سے گری ہوئی حرکتیں کی جاتی ہیں۔۔۔، ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر
کو سامنے رکھتے ہوئے عورت کو وہ مقام دلایا جائے جس کا ذکر نبی پاک نے کیا۔
تاکہ انسانی قدریں بحال ہوں، جینے کا وقار بلند ہو اور انسانیت کا صحیح
معنوں میں شعور پیدا ہو۔ |