فکر آخرت
(nabilaHabib Abbasi, islamabad)
"اور جس دن صور پھونکا جائے گا
تو یکا یک لوگ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑپڑیں گے اور کہیں گے ہائے
ہماری بد بختی ہمیں کسں نے ہماری خواب گاہوں سے اٹھا دیا۔یہ تو وہی قیامت
کا دن ہے جس کا خدائے رحمن نے ھم سے وعدہ تھا اور رسولوں نے سچ خبر دی تھی
۔"سورہ یسین
جس دن پہلا صور پھونکا جائے گا قیامت طاری ہو جائے گی ۔اور ہر شخص جہاں پر
وہ موجود ہو گا مر جائے گا ۔کائنا ت کی ہر چیز پر موت وارد ہو جائے گی ،اور
اگر باقی بچے گی تو تیر ے رب کی ذات جو صاحب زوالجلال و الاکرام ھے ۔پھر
دوسرا صور پھونکا جائے گا،اس کی آواز سنتے ہی ہر شخص اپنی قبر سے اٹھ اٹھ
کر میدان حشر کی طرف بھاگے گا۔قبروں سے مراد یہ قبریں نہیں ہیں،جہاں مسلمان
،عیسائی اور یہودی اپنے مردوں کو دفن کرتے ہیں ۔ہندو اپنے مردوں کو جلاتے
ہیں تو وہ جلے ہوئے ڈھانچے اور ہڈیاں انسانی شکال میں جمع کر چل پڑیں گی ۔اگر
کوئی انسان سمندر یا دریا میں بہہ گیا تو وہاں سے نکل کر وہ اللہ تعالی کے
سامنے حاضر ہوگا ۔اگر کوئی کسی شیر ،بھیڑیے یا چیتے یا کسی اور جانور کا
لقمہ تر بن گیا تواس کے پیٹ سے نکل کر دربار عالیہ میں حاضر ہونے کے لیے
بھاگے گا ۔غرض آدم سے لیکر قیامت تک پیدا ہونے والا شخص ایک ہی جگہ کا رخ
کرے گااور سب کے سب اللہ کے سامنے جوابدہ ہو گے ۔ہر شخص اپنی بدبختی کو
آوازیں دے رہا ہو گاکہ ان کی خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا ۔پھر انہیں خیال
آئے گا کہ وہ اپنی خواب گاہوں میں نہیں تھے بلکہ مر چکے تھے ۔اب تو قیامت
کا دن ہے جس قیامت کو وہ جھٹلاتے تھے ۔اللہ نے ان سے قیامت کا وعدہ کیا
تھا۔رسولوں نے بار بار اس کی خبر دی تھی ۔اب وہ جیتی جاگتی قیامت کامشاہدہ
کر رہے تھے ۔مگر اب قیامت کا ماننا نہ ماننا برابر تھا ۔جب قیامت کو ماننے
کا فائدہ تھا اس وقت تو قیامت کو نہیں مانا اور اب جبکہ اعمال کا وقت گزر
گیا ،پھچتانا بھی بیکار:
اب پچھتائے کیا ہوت
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
منکرین آخرت کی منزل مقصود صرف دنیا ہوتی ہے۔اس لئے ان کے کاروں کا سفر
دنیا سے شروع ہو کر دنیا پرہی ختم ہو جاتا ہے جو دوڑ دھوپ کرتے ہیں اسی
دنیا کے لئے کرتے ہیں اور جب دنیا کی اکثریت آخرت کی منکر ہو جاتی ہے تو
ساری دنیا ظلم اور فساد سے بھر جاتی ہے ۔
پارٹیوں کے لیڈر ،ملکوں کے قائد اور حکومتوں کے سربراہ سب کے سب دنیا کے
پرستار ،نفس کے غلام اور مصلحت کے بندے بن جاتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ سے راوی ہے کہ رسول نے فرمایا:
"لذتوں کو مٹا دینے والی یعنی موت کو کثرت سے یادکرو"
موت کو لذتوں کو مٹادینے والی اس لیے کہا گیا کہ موت آجاتی ہے تو دنیاوی
لذتوں کو ختم کر دیتی ہے۔اس لئے کہا گیا کہ جو شخص موت کو کثرت سے یادکرتا
ہے تو اسے دنیا کی بے ثباتی اور عارضی لذتوں سے دلچسپی نیہں رہتی ۔
حضورّنے فرمایا:دوزخ میں سب سے کم عذاب اس شخص کو ہو گا جس کو صرف آگ کے
جوتے پہنائے جائے گے ۔لیکن اس آگ سے اس کی کھوپڑی ابل رہی ہو گی اور وہ
سمجھے گا کہ سب سے زیادہ عذاب اس کو ہو رہا ہے ۔
ایک دفعہ نبی کریم صحابہ کرام کے ساتھ سفر کر رہے تھے ۔راستے میں حضور کی
سواری آگے نکل گئی۔حضور تنہا رہ گئے ۔صحابہ کرام سب کے سب پیچھے رہ گئے ۔اس
موقع پر حضور نے با آواز بلند سورہ حج کی ابتدائی دو آیات تلاوت کرنا شروع
کر دیں۔
"اے لوگو اپنے رب سے ڈرو بے شک قیامت کی گھڑی سخت ہے۔تو اس دن دیکھے گا کہ
ہر دودھ پلانے والی ماں اپنے بچے سے غافل ہو جائے گی۔اورہر حاملہ کا حمل گر
جائے گا ،اور تو دیکھے گا کہ ہر شخص نشے میں معلوم ہوگا ۔حالانکہ وہ نشے
میں نہیں ہو گا بلکہ اللہ کا عذاب ہی اتنا سخت ہو گا۔
صحابہ کرام نے سرور کائنات کی آواز سنی تو پروانہ وار سواریاں دوڑاتے ہوئے
آپ کے گرد اکھٹے ہو گئے۔ آپ نے صحابہ سے پوچھا کہ یہ کس دن کا تذکرہ ہے
؟صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ اور ہی بہتر جانتےہیں۔آپ نے فرمایا :جب قیامت
قائم ہوگی اللہ تعالی آدم کو بلائے گا اور ان سے کہے گا کہ اپنی اولاد میں
سے جہنم میں جانے والوں کو الگ کر دو۔آدم پوچھیں گے اللہ تعالی میری اولاد
میں سے جہنم کا ایندھن بننے والے کتنے ہیں۔اللہ تعالی ارشاد فرمائے گے
:تیری اولاد میں سے نو سو ننانوے جہنم میں جائیں گے۔
صحابہ کرام پوری زندگی خوف آخرت میں گزاری ،جتنا بڑا ان کا مقام تھا اتنا
ہی ان میں اللہ کا ڈر بھی زیادہ تھا۔
سیدنا علی سب سے کم عمری میں اسلام قبول کرنے والے تھے حضور کے چچا ذاد
بھائی تھے ۔حضور کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ کے شوہر تھے ۔دنیا کے
چوتھے خلیفہ تھے دنیا میں ہی جنت کی خوشبری مل چکی تھی ۔لیکن آخرت کا خوف
اتنا تھا جب رات ختم ہونے کو آتی تو داڑھی ہاتھ میں لیکر اس طرح بے قرار ہو
جاتے جیسے سانپ کا کاٹا ہوا بے قرار ہوتا ہیں اور بڑی دردناک آواز میں روتے
اور کہتے اے دنیا :جا کسی اور دھوکہ دے۔
ایک دن قبرستان میں بیٹھے تھے کسی نے پوچھا :آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں ؟
میں ان لوگوں کو بہت اچھا ہم نشین پاتا ہوں ،یہ کسی سے بدگمانی نہیں کرتے
،کسی کی غیبیت نہیں کرتے،اور آخرت کی یاد دلاتے ہیں۔
صحابہ کرام کی زندگیوں کے ہزاروں واقعات ہیں کیا کیا بیان کیا جائےاور کیا
کیا نہ بیان کیا جائے ہمیں ان واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور ہر روز
رات کو سوتے وقت اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ آج رات
اگر ہمیں قبر میں گزارنی پڑے تو کیا ہم زہنی طور پر تیار ہیں ؟؟؟ |
|