عدم توازن اور پختونستان
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
رنگت گوری ہو،قد لمبا ہو، بال
گھنگھریالے ہو، آنکھیں بھی غزالی ہوں لیکن اگر ان میں توازن نہ ہو،ایک
چھوٹی اور ایک بڑی ہو تو حسن غارت کر کے رکھ دیتی ہیں۔اس چہرے کو حسین نہیں
بھینگا کہا جاتا ہے۔قدرت کا نظام توازن اور اعتدال پہ چلتا ہے۔دنیا اعتدال
پہ قائم ہے اور توازن پہ۔ستارے سورج چاند زمین تواتر سے، اعتدال سے ،توازن
سے اپنے اپنے مدار میں گھومتے ہیں اگر ایک دوسرے کی راہ کاٹنے لگیں تو
قیامت بپا ہو جائے۔دنیا توازن اور اعتدال پہ قائم ہے۔ملک توازن اور اعتدال
سے چلتے ہیں بلکہ گھر بھی۔جہاں کہیں توازن بگڑاا ملک کی شکست وریخت شروع ہو
جاتی ہے۔ بڑی بڑی سلطنتیں اسی عدم توازن کی بناء پہ تباہ ہوئیں۔گھر ہی کو
دیکھیں جہاں کہیں باپ کے اختیارات میں ماں اور ماں کی راجدھانی میں باپ نے
مداخلت کی اس گھر کے بچے آپ کو سرکش بدتمیز اور لا پروا ملیں گے۔کائنات کا
نظام ایک اتھارٹی کے تحت چلتا ہے جونہی وہ اتھارٹی چیلینج ہونے لگے چیزیں
تباہی کی طرف جانے لگتی ہیں۔
پاکستان سب کا ہے۔سندھی بلوچ پٹھان پنجابی کشمیری بلتستانی سبھی کا۔کسی کا
بھی حق ہے کہ کہیں بھی جا کے رہے۔ پاکستان کے قریے قریے اور گوشے گوشے
میں۔قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔لوگ بہتر روزگار کے لئے ،بچوں کی تعلیم کے
لئے ،امن و امان کے لئے، دشمنیوں سے بچنے کے لئے اور اس کے علاوہ اور بے
پناہ عوامل ہیں جنکی وجہ سے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کے نئی جگہ کو اپنا وطن
بناتے ہیں۔ریاست اسے روکتی نہیں لیکن غیر محسوس طریقے سے اس سارے عمل پہ
نظر ضرور رکھتی ہے۔جہاں ناکام ہو جائے وہاں کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ہندوستان
سے مہاجرت بہت سارے لوگوں نے کی لیکن اردو بولنے والے پڑھے لکھے بھی تھے
اور سمجھدار بھی۔ انہوں نے پورٹ سٹی کراچی کو اپنے نئے وطن کے طور پہ
چنا۔اس وقت کی حکومت نے اپنے تئیں انہیں پورے پاکستان میں بسانے کی کوشش
بھی کی لیکن بے سود۔پورے پاکستان میں بسنے والے اردو سپیکنگ اپنی جائیدادیں
بیچ کے اور ایک اور ہجرت کر کے کراچی جا بسے۔کراچی کے قدیم باشندے اب وہاں
ریڈ انڈین ہیں۔تلخ لیکن حقیقت یہی ہے۔نقصان یہ ہوا کہ وہ وہاں کی آبادی میں
گھلے ملے نہیں بلکہ انہوں نے اپنی شناخت قائم رکھی ۔مہاجروں کی پہلی نسل
پاکستان پہ جان دیتی تھی۔ زیادتیوں کے باوجود انہوں نے پاکستان سے اپنی
محبت میں کمی نہیں کی۔دوسری نسل جس نے پاکستان میں جنم لیا تھاان میں ملک
سے نہیں مہاجروں سے وفاداری کا عنصر زیادہ تھاانہوں نے پاکستان کی جان لینا
شروع کی۔ تشدد نوجوان طبقے کے لئے ویسے ہی بہت پسندیدہ ہوتا ہے۔راہ ملی تو
انہوں نے اپنے سامنے آنے والی ہر شے کو بوری میں بند کر دیا۔قائد کا جو
غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے۔آج قائد لندن میں پکڑا گیا لیکن گلیاں کراچی کی
یرغمال ہیں۔ جان کسے عزیز نہیں ہوتی۔کراچی کے پرندے بھی سہمے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں چیک اور بیلنس تو ہے نہیں۔اب پوٹھوہار کا خطہ اسی صورتِ حال سے
دوچار ہے۔ حکومت بے خبر ہے بے بس ہے یا نااہل یہ تو خدا جانے لیکن ایک عام
شہری اس خطرے کو نہ صرف پوری طرح محسوس کرتا ہے بلکہ آئے روز اس خطرے کا
سامنا بھی کرتا ہے۔ہم نے روس کو توڑنے کے چکر میں افغانیوں کو اپنے ہاں
پناہ دی۔ہم نے ان کے لئے اپنے گھروں تک کے دروازے کھول دئیے۔وہ لٹے پٹے تھے
اور بہت مسکین۔لیکن اب اس علاقے میں ان کی تیسری نسل جوان ہو رہی ہے۔
افغانستان جنہیں واپس جانا تھا وہ اب پورے کاغذات کے ساتھ نہ صرف مقامی
ہیں۔جائیدادیں رکھتے ہیں بلکہ الیکشن تک لڑتے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں ہم فرنٹ لائن اتحادی تو بن گئے لیکن اس جنگ نے فاٹا کے لوگوں کو ہجرت
پہ مجبور کیا۔ان لوگوں کی اکثریت بھی کے پی کے کی سرحدیں عبور کر کے
پوٹھوہار میں آکے بس گئی۔ قانونی طور پہ یہ ایک جائز عمل ہے لیکن اس کے
نتیجے میں امن و امان کے مسائل پیدا ہوئے۔ آبادی کا توازن بگڑا اور اب یہ
عالم ہے کہ آئے روز ان علاقوں میں چوریاں ہوتی ہیں قتل کئے جاتے ہیں۔مجرم
پکڑنے کا ہمارے ہاں رواج نہیں لیکن پکڑے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ افغانی
ہیں اور پٹھان ۔اس سے معاشرے میں سارے پٹھانوں کے خلاف اندر ہی اندر ایک
لاوا پک رہا ہے۔سب کو علم ہے لیکن معاملہ اتنا حساس ہے کہ کوئی اس کے تدارک
کے لئے آگے نہیں بڑھتا۔کچھ نیم دلانہ کوششیں ہوتی ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک
کے تین پات۔
ملک دشمن طاقتوں نے ملک کے ٹکڑے کرنے کا جو منصوبہ سالوں پہلے دیا تھا اس
میں جہلم کے پل تک کا حصہ پختونستان میں شامل ہے۔ہم مسلمان ہیں تعصب ہمارے
ہاں حرام ہے لیکن یہ ہمی ہیں جو تعصب پہ سب سے پہلے اکٹھے ہوتے ہیں۔ کل
کلاں کسی دشمن کی تعصب پہ دی گئی آواز اس علاقے کو اندر ہی سے توڑ ڈالے گی۔
باہر سے فوج کشی کی ضرورت ہی نہیں۔ خدا مجھے غارت کرے اگر میں تعصب پہ
اکٹھا ہونے والوں میں سے ہوں لیکن دیوار پہ لکھی خون ریزی پہ چپ رہنا بھی
تو منافقت ہے۔کل کلاں مسلمان ہی کا خون بہے گا اور اتنا کہ سنا ہے اٹک دریا
کا رنگ تبدیل ہو جائے گا۔پنجابی ہو یا پٹھان، ہیں سب مسلمان ،نقصان کس کا
ہو گا؟
ہمارے وزیر داخلہ بھی پوٹھوہار کے ہیں۔کام بھی انہی کا ہے کہ وہ اس کے بارے
میں فکر مند ہوں۔کل کلاں لگنے والی یہ آگ انہی کے بھائی بندوں کو جلائے
گی۔لیکن خیر انہیں پریشانی کی ضرورت نہیں۔ سنا ہے ان کے بچوں کے پاس تو
امریکی شہریت ہے۔اس بنیاد پہ ابا جی کو بھی امریکہ کسی نہ کسی طور قبول کر
ہی لے گا۔انہوں نے نوکری ہی کرنی ہے یہ نہ سہی وہ سہی |
|