میری خفیہ آزادی: دوستوں کی آزادی اور عورت دشمنی

انسانی سوچ ہر سماج میں داڑ یں ڈال کرانہیں آپس میں تقسیم کردیتا ہے۔ ہر سماج میں ایسے انسان پائے جاتے ہیں جو قدیم روایتوں کو پابندی کا ذریعہ سمجھ کر انہیں توڑنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ سماج میں رہنے والے انسانوں کو جدید دورسے ہم آہنگ کرکے جینا سکھایاجائے۔ایسے لوگوں کو زمانہ انقلابی انسان کہتاہے جو قدیم سماجی روایتوں سے انحراف کرکے اْسے جدید بنانے کی جستجومیں لگے رہتے ہیں۔ کیونکہ اْن کا خیال ہے کہ کسی بھی سماج میں رہنے کے لیے قدیم اور فرسودہ رسومات سے انحراف ناگزیر ہے اگر تادم مرگ انسان قدیم روایتوں کا اسیر رہے تو دوسرے انسانی معاشروں کے برابرسہولیات اور آسائش زندگی سے محروم رہتاہے۔اور قدیم رسومات کا قیدی بن کر انسان کے عزم دوسرے جدیدمعاشروں کے انسانوں سے پست رہتے ہیں اور اْن میں نفسیاتی بے چینی پیداہوجاتی ہیں۔اسی لیے وہ قدیم سماجی بندھنوں کو جدید دور میں ناکافی سمجھ کر اْسے دوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

گزشتہ مہینے بی بی سی اردو سروس پر ایک رپورٹ پڑھنے کو ملا کہ ایرانی عورتیں حجاب سے تنگ آکراس کے خلاف فیس بْک میں’’میری خفیہ آزادی‘‘ کے نام سے ایک پیج بنا کر وہاں پر اپنی بغیرحجاب والی تصاویریں اور حجاب کے خلاف خبریں شائع کررہی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ’’یہ فیس بک پیج برطانیہ میں مقیم ایرانی صحافی عالی نژاد نے بنایا ہے۔اسی پیج کے حوالے سے ان کا کہنا ہے: ’لگتا تھا جیسے میرے بال حکومت کی زیر حراست ہیں۔ حکومت نے ابھی بھی بہت سوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے‘‘۔عالمی نشریاتی ادارے کے مطابق ’’عالی نڑاد کو اس فیس بک پیج کا خیال اس وقت آیا جب انھوں نے اپنے فیس بک پیج پر حجاب کے بغیر چند تصاویر ڈالیں اس پر انہوں نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاہے کہ: ’ ان تصاویر کو ہزاروں لوگوں نے پسند کیا۔ بہت سی خواتین نے اپنی تصاویر مجھے بھیجنی شروع کیں اور میں نے سوچا کہ ایک مخصوص پیج بنایا جائے۔ بی بی سی کے مطابق اگرچہ عالی نڑاد ایرانی حکومت پر تنقید کے لیے مشہور ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ یہ سیاسی پیج نہیں ہے‘‘۔

عالمی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں پیج پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ فیس بک پیج ایک ہفتہ قبل ہی بنایا گیا ہے اور اس مختصر سے عرصے میں ایک لاکھ 32 ہزار افراد نے اسے پسند کیا ہے۔ پسند کرنے والوں میں مرد اور خواتین دونوں ہیں اور تقریباً تمام ہی لوگ ایران سے ہیں’جو خواتین تصاویر بھجوا رہی ہیں وہ انسانی حقوق کی کارکن نہیں بلکہ عام خواتین ہیں جو اپنے دل کی بات کر رہی ہیں‘‘۔بی بی سی کے مطابق ’’ 35 سال قبل ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد سے خواتین کے لیے حجاب کے بغیر گھر سے نکلنا غیر قانونی ہے۔ ایسا کرنے پر جرمانے سے لے کر جیل تک کی سزا مل سکتی ہے۔زیادہ تر تصاویر کے ہمراہ عبارتیں لکھی ہوئی ہیں، جیسے: ’مجھے حجاب سے نفرت ہے۔ مجھے بھی سورج کی شعاعوں کو محسوس کرنا اور بالوں میں ہوا لگنا اچھا لگتا ہے۔ کیا یہ بہت بڑا گناہ ہے؟‘اس رپورٹ میں مزید یہ بتایا گیا ہے کہ ’’فی الحال اس پیج پر ڈیڑھ سو تصاویر موجود ہیں۔ ان تصاویر میں خواتین ساحل سمندر پر، سڑکوں پر، دیہاتوں میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ہمراہ ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان تصاویر میں سبھی خواتین بغیر حجاب کے ہیں‘‘۔

اس دلچسپ رپورٹ کو پڑھنے کے بعد مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ ایران میں عورتیں حجاب کی قیدسے تنگ آکر اْس سے باہرنکلنے کی نہ صرف خواہشات رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے عملی اقدامات بھی اْٹھا رہے ہیں۔ کیونکہ ہرسماج میں تبدیلی کے خواہش مند لوگ ہرحوالے سے اپنی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔جب میں نے اْس پیچ کو دیکھا تو مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ بی بی سی جیسے عالمی نشریاتی ادارے نے مبالغہ آرائی سے کام لے غلط اعدادو شمار بیان کیے تھے۔ پیج واقعی ایک ہفتے قبل بنایا گیا تھا مگر عالمی نشریاتی ادارے نے اپنے رپورٹ میں لکھا ہے اْسے ایک لاکھ بتیس ہزار افرادنے پسند کیا ہے، جو کہ غلط بیانی پر مبنی تھا۔ کیوں کہ اْس وقت جب رپورٹ پڑھنے کے بعد میں نے پیج کو دیکھا تھا تو صرف پانچ سو بیالیس افرادنے اْس کو پسند کیا تھا اور اْس پر صرف آٹھ ایرانی خواتین کی بغیر حجاب والی تصاویریں تھیں جب کہ عالمی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے ’’ایران میں بڑی تعداد میں خواتین ’مائی سٹیلتھی فریڈم‘ یا ’میری خفیہ آزادی‘ نامی فیس بک پیج پر اپنی حجاب کے بغیر تصاویر پوسٹ کر رہی ہیں,فی الحال اس پیج پر ڈیڑھ سو تصاویر موجود ہیں‘‘۔

جب میں نے اس پیچ کو پسند کیا تو سامنے ایک آپشن تھا کہ اپنے دوستوں کو پسند کرنے کی دعوت دیں میں نے اپنے فیس بْک کے تمام دوستوں کوبرجستہ اور بلاتعصب اس پیج کو پسند کرنے کے لیے ایک ایک کرکے دعوت نامے کا بٹن دبا نا شروع کردیا۔ میرے آٹھ سو چیالیس دوستوں میں سے صرف پینتالیس دوستوں نے اْس دعوت نامے کو قبول کیا اور پیج کو پسند فرمایا۔ باقی سب دوستوں نے پیج کو پسند نہیں کیا، جس میں وہ بااختیار ہیں کہ کوئی چیزپسند کریں یا نہ کریں۔ لیکن ایک فرضی آئی ڈی والے دوست کی آزادی پسندی، انقلابیت اور عورت دوستی کا پول اْس وقت کھل گیا, جب اْس کا غصے سے بھرا میسیج مجھے ملا جس میں اْس نے کہا ہے کہ ’’آپ جیسے دو کوڈی کے آدمی کی یہ ہمت کیسے ہوئی جو مجھے ایرانی اوباش لڑکیوں کے پیج کو پسند کرنے کی دعوت دی ہے؟‘‘

تو اْس دوست سے عرض ہے کہ میں انسان کو صرف انسان پہچانتا ہوں اْسے دوست یا دشمن ، حمایتی یا مخالفت کرنے والے کے یا بطور رنگ و نسل کے نہیں پہچانتا، کیونکہ ہرکسی کا اپنا اپنا پن ہوتا ہے اور یہ میرا پنا پن ہے۔کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ انسانوں سے نفرت کرنے،انہیں گالی دینے اورنیچ سمجھنے کا فرسودہ زمانہ اور نوآبادیاتی عہد فنا ہونے والی ہے۔ جدید اور ٹیکنالوجی کا عہد انسان سے یہی تقاضا کرتاہے کہ انسان سماج میں رہ کر ایک دوسرے سے محبت بانٹیں اور امن و خوشی سے زندگی گزاریں۔ اگر کسی کومجھ سے کوئی اختلاف ہے۔ تو میں اْس سے بھی محبت کرتاہوں اور اْس کی قدر کرتا ہوں۔ کیوں کہ نفرت اور اختلاف میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتاہے۔اگر کسی اور کو یہ دعوت نامہ بْری لگی ہے یا میرے دعوت دینے پراْ س کی شخصیت اور جاہ و جلال پر ذرا سی آنچ آئی ہے تو اْس کی ذمہ داری میں قبول کرتاہوں اور آئندہ ایسی حرکتوں سے گریز کروں گا کہ جس کی وجہ سے کسی کی شان میں فرق آئے۔

میری خفیہ آزادی کی پیج پر اب تک تقریباً تین یا چارعالمی اخبار اور ویب سائٹس نے رپورٹ لکھی ہیں اور اْس کو سراہا ہے۔اور اب تک تقریباً چودہ کے قریب تصاویریں پوسٹ کی گئی ہیں جو ایرانی خواتین کی بغیر حجاب والی تصاویریں ہیں اور ابھی تک پیج کو70144 4افراد نے پسند کی ہے۔ پیج کے ایڈمن عالی نڑادنے ایک میسیج کی اسکریں پرنٹ شائع کی ہے جس میں اْسے کسی ایرانی رجعت پسند کی طرف سے دھمکی دے کر یہ کہا گیا ہے کہ ’’ میں آپ کا سخت ریپ کروں گا، آپ امریکیوں اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔آپ اسلام اور ایران کے دشمن ہیں۔یہ وعدہ ہے کہ ہم آپ کی شناخت کرکے آپ کو روڈ پر گھیسٹ کر سنگسار کردیں گے‘‘۔

جب فرسودہ سماج میں انسانوں کا دم گھٹنے لگتے ہیں تو وہ اْسے ایک قیدخانہ سمجھ کر اْس سے آزادی حاصل کرنے کی خواہش کرتے ہیں یہاں سے قدیم سماجی روایتوں سے ایک آزادی پسندانسان کا جنم ہوتاہے اور وہ دوسروں کی آزادی کا تصور کرکے جینا شروع کردیتاہے۔ وہ اپنے خواہشات اور امنگوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نئے خیالات کے ساتھ سماج میں واردہوتاہے، اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔جب اْس کو ہمنوا مل جاتے ہیں تو وہ سوچ انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف سفر کرتاہے۔ یہاں سے قدیم سماج میں دراڑیں پڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اور سماج قدیم اور جدید سوچ میں بٹ جاتاہے۔ جس سے گھبراکر قدیم سماجی روایتوں کے امین اور نوآبادیاتی سوچ کے حامل افراد، سائنسی خیالات اورمنطقی افکارکے حامل افراد سے خوف کھاکر اْس کے امینوں کو دشمن سمجھ کر انہیں مختلف حربوں کے ذریعے ہزیتیں دینا شروع کردیتے ہیں۔
Shoaib Shadab
About the Author: Shoaib Shadab Read More Articles by Shoaib Shadab: 8 Articles with 8971 views Shoaib Shadab is a Research Scholar and Progressive Writer. He is Founder-President of Liberal Scholars Society, Balochistan .. View More