ایک عورت کے کئی قتل
(Muhammad Amjad Khan, Pakpattan)
غیرت کے نام پر قتل آج کوئی پہلی
بار نہیں ہو ابلکہ ظہور ِ اسلام سے قبل کا یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے اُس وقت
ایک عورت کو صرف ایک بار ہی قتل کیا جاتا تھا مگر اب عورت کے متعددقتل کئے
جا ر ہے ہیں،ظہور اسلام سے قبل عورت کو پیدا ہوتے ہی اس لئے قتل کر دیا
جاتا تھا کہ اگر وہ زندہ رہی تو گھر میں داماد آئے گاجو باعثِ شرم بنے گا
اور زندہ درگور یہ سوچ کر کیا جاتا تھا کہ زندہ درگور کرنے سے شاید عورت
دوبارہ پیدا نہ ہو جو کہ سراسر غلط و انتہائی غلیظ سوچ اور اُس وقت کی
جہالت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے اس طرح اُس زمانہ جہالت میں ایک عورت صرف
ایک بارہی قتل ہوتی تھی جو کہ جاہل معاشرہ کے غیر مذہب لوگ کیاکرتے تھے اس
کے بعد جب شمعِ رسالت روشن ہوئی یعنی کہ جب محسنِ انسانیت، سرورِ
دوجہاں،فخرِ موجودات،نورِ خدا، رحمت العالمین ،حضور نبی کریم حضرت
محمدمصطفیٰ ﷺ اس دُنیا میں تشریف لائے تو انہوں نے جہالت میں ڈوبی ہوئی اس
قوم کو اﷲ کا پیغام سناتے ہوئے عورت کو وہ مقام دیاجو اسلام کے علاوہ آج تک
کسی بھی مذہب نے نہیں دیا ،آپ ﷺنے عورت کو ماں کا درجہ دیا اور ماں کے
قدموں میں جنت بتا کر ایک ناقابلِ فراموش حقیت کو دُنیا کے سامنے رکھ دیا
پھر بہن ،بیٹی اور بیوی کے رشتوں کی وضاحت کرتے ہوئے ان رشتوں کی اہمیت سے
آشنا کیا ،جس کے بعدمرد کے عورت پر اور عورت کے مرد پر حقوق واضع کئے،یہاں
تک کہ اسلام نے توشادی کیلئے عورت کو مرد اور مرد کو عورت کے اُس کی خواہش
کے مطابق چناؤسے لے کر نکاح تک کی بھی وضاحت کر دی مگر افسوس صد افسوس کہ
ہم ان اسلامی قوانین پر عمل کرنے کو ہتک سمجھ کر اپنے سابق دورِ جاہلیت کے
قوائدوضوابط آج بھی اپنے اوپر مسلط کئے ہوئے ہیں،ہم مسلمان ہونے کے باوجود
آج بھی اپنی بیویوں کے ساتھ لونڈیوں کا سا جبکہ بیٹیوں کے ساتھ دورِ جاہلیت
سے بھی بد تر سلوک کر رہے ہیں یعنی کہ ہم اسلامی قوانین پر عمل کرنے کی
بجائے دورِ جاہلیت کی قوموں سے بھی دو چار ہاتھ آگے نکلتے جا رہے ہیں وہ تو
اپنی بیٹیوں کا ایک ایک بار قتل کرتے تھے مگر ہم اپنی بیٹیوں کو گائے بھینس
یا بکری سمجھ کر زمانہ پر ورشی سے لے کر اُسکے مرنے تک مختلف طریقوں سے کئی
کئی قتل کردیتے ہیں،کبھی بیٹے کو ابتر اور بیٹی کو بدتر سمجھ کر اُس کے
جذبات کا قتل کرتے ہیں،توکبھی اُس کی مرضی کے خلاف جس کے ساتھ جی چاہے بیاہ
کر اُس کے ساتھ و احساسات دونوں کا ہی قتل ِ عام کر دیتے ہیں،کبھی ہم اُس
پر اُس کی پرورش کا احسان جتا کر اُسے پل پل کی موت دے دیتے ہیں ،تو کبھی
اُسے اپنی ازدواجی زندگی کا فیصلہ خود کرنے پر موت کی نید سلا دیتے ہیں یہ
سب ہم کبھی غیرت کے نام پر تو کبھی بے حیائی کے نام پر کرتے ہیں، مگر حقیقت
میں ہمارے اندر نہ غیرت کی رتی ہے اور نہ ہی حیا کا کوئی ذرہ ہے ،کیونکہ ہم
ایک طرف تو مسلمان کہلاتے ہیں مگر کام دورِ جاہلیت کے لوگوں سے بھی بد تر
کرتے ہیں، اﷲ کے ہاں سب انسان برابر ہیں مگر ہم کبھی ذات پات میں بٹ کر تو
کبھی امیری غریبی کے نام پر معصوم جذبوں کا قتل عام کررہے ہیں جبکہ اﷲ ربُ
العزت نے ہمیں صاف صاف بتا بھی دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے حقوق تو معاف کر
سکتا ہوں اپنی مخلوق کے نہیں،ہم غیرت مند ہوتے تو خدا کے اس حکم پر عمل
کرتے ہوئے مخلوقِ خدا کے حقوق ادا کر رہے ہوتے مگر افسوس کہ ہم خود توجو
چاہے کرتے پھریں لیکن عورت کو کھانا بنانے میں بھی دیر ہوجائے تو اُس پر
ایسے ایسے الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں کہ شرم کے مارے نہ اُسے موت آتی
ہے اور نہ ہی وہ زندہ رہتی ہے،ہم اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکتے کہ ہم
کتنے داغ دار ہیں اور عورت کی نیند پر بھی شک کر لیتے ہیں،کیا وہ انسان
نہیں؟ کیا اُس کے جذبات نہیں ،اگر ہم غلطی کر سکتے ہیں تو وہ بھی توانسان
ہے خطا اُس سے بھی ہو سکتی ہے ،اگر یہ خطا ہمیں گوارہ نہیں تو ہم بھی خطا
نہ کریں اگر ہم خطا نہ کریں گے تو ہماری بیوی بیٹی یابہن کو بھی خدا اس خطا
سے محفوظ رکھے گا جس کا خدا نے اپنی پاک کلام میں کچھ اس طرح سے وعدہ
فرمایا ہے کہ( پاک مردوں کیلئے پاک عورتیں اور گندے مردوں کیلئے گندی
عورتیں ہیں ) مگر افسوس کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ہم یہ سمجھتے
ہیں کہ ہم ہر برائی اچھائی کیلئے آزاد حاکم ہیں اور عورتیں ہماری غلام جبکہ
دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں وہاں کے لوگ حقائق کو بخوبی سمجھتے
ہیں اور وہ غیر مذہب ہو کر بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے فخر محسوس
کرتے ہیں کیونکہ اسلامی تعلیمات کے علاوہ کسی بھی مذہب میں انسانی فلاح و
بہبود ممکن ہی نہیں ،جس کی روشنی میں آج وہ غیر مہذب قومیں ہوکر بھی مہذب
یافتہ اور ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہو رہی ہیں،اُن کے ہاں مرد و عورت کو
برابر کی اہمیت و عزت دی جاتی ہے ،جیسے مردوں کے جذبات کی قدر کی جاتی ہے
ویسے ہی عورتوں کے جذبات کی بھی قدر ہوتی ہے ،وہاں ایک کی مرضی دوسرے پر
مسلط نہیں ہوتی ،اولاد کی پرورش کو والدین اپنا فرض سمجھتا ہے اس لئے اولاد
کی ازدواجی خواہشات پر وہ اپنے فیصلے زبر دستی مسلط کرنے کی بجائے اُنہیں
اخلاقاً قائل کرتاہے ،اگر کوئی پیار سے سمجھے تو ٹھیک ورنہ اُسے اُس کے حال
پر چھوڑ دیا جاتا ہے،مگر ہمارے ہاں سزا جزا کا فیصلہ بھی سنا دیاجاتا ہے ،دوسرے
ممالک میں کسی سردار کو کسی بھکاری پر بر تری نہیں، اور نہ ہی کوئی ذات پات
کا تضاد ہے ،وہاں کسی کے نائی ہونے پر اُس سے نفرت نہیں کی جاتی اور نہ ہی
کسی موچی کو حقیر سمجھا جاتا ہے ،وہاں سب کو برابری کی نگاہ سے دیکھا جاتا
ہے ،وہاں جو کوئی بھی جو جرم کرتا ہے اُس کو سزایا جزا دینے کا قانون نافذ
کرنے والے اداروں یا خدا کے سوا کسی کو کوئی اختیار نہیں وہاں کاقانون سب
کیلئے ایک ہے ،مگر ہمارے ہاں وڈیروں جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کیلئے
الگ جبکہ مڈِل کلاس اور غریب لوگوں کیلئے الگ ہے وہاں پر ہر کیس کے ہر مدعی
کو تحفظ ملتا ہے مگر ہمارے ہاں سوائے مالدار وں کے کوئی محفوظ نہیں ،اُن کے
قانون نافظ کرنے والے ادارے کرپشن سے پاک ہیں مگر ہم سے تو پولیس کو ہی
لگام نہیں ڈلتی ،وہاں کا ہر شہری آزاد ہے جبکہ ہمارے ہر کیس کا مدعی بلیک
میل ہے ،جس کے سبب چاہے کوئی فرزانہ انصاف کی دہلیز پر قتل ہو یا کوئی آمنہ
کھیتوں میں لُٹ جائے ، انصاف کہیں سے نہیں ملتا ،جوکہ لمحہ فکریہ ہے (فی
ایمان اﷲ) ۔ |
|