بے حسی و بے توقیری ہمارے معاشرے
کا ایک خطرناک روپ بن چکاہے اس کے باوجود کہ ہم نے آج بھی کسی نہ کسی انداز
میں کنبہ قبیلہ ،برادری و خاندان نامی رشتے جو اندر سے کافی حد تک کھوکھلے
ہو چکے ہیں کو بظاہر نام کی حد تک زندہ رکھا ہوا ہے اورہم اکثر و بیشتر دلی
طور پر ناں سہی مگر ’’لوگ ہنسیں گے ‘‘ کے ڈر سے شادیوں و جنازوں کے موقع پر
ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملائے کھوکھلی مسکان لئے وہاں موجود رہتے ہیں
لیکن دل ہی دل میں یہ بے چینی اندر کھلبلی مچا رہی ہوتی ہے کہ ’’یار یہ
جنازہ کب دفن ہوگا ۔۔۔؟یہ نکاح کب ہو گا ۔۔؟ اور اس ظائری خاندانی پس منظر
و پیش منظر کے باوجود ہر انسان اپنی اپنی جگہ تنہا ہ زندگی گزار رہا ہے اور
بے رحم وقت نے انسان سے محبت ،بھائی چارے اور ایک دوسرے کے درد کو محسوس
کرنے جیسی نعمتوں کو چھین کر بے یارو مدد گار بنا دیا ہے اوریہ سب جانتے
ہوئے بھی لوگ اسی راہ پہ گامزن ہیں اوربیشک وہ وقت بھی دور نہیں جب ہم یہ
سوچ کر سب اپنوں کو کھو دین گے کہ ’’ وہ نہیں ملتا تو میں اسے کیوں ملوں۔۔‘‘
ہماری جنم بھومی پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر ہے جہاں صدیوں سے رائج
مشترکہ خاندانی روایات جو آج بھی کسی ناں کسی صورت میں کچھ حد تک موجود
’’شائد آخری ہچکیاں لے رہی ہیں‘‘وہ روایات جن کا محض تصور کر لینا ہی دل کے
سکوں و راحت کا سبب بن جاتا ہے کے اثرات کہیں نہ کہیں ضرور نظر آتے ہیں اور
یہی وہ رہی سہی سماجی خصوصیات ہیں جو آج بھی اس خطے کو دوسرے علاقوں سے
ممتاز بناتی ہیں اور اس خطہ کے لوگ ہمیشہ علم دوست رہے ہیں ناگہانی حالات
کے باوجود علم و ہنر کی پیاس انہیں ورثے میں ملی ہے حال ہی میں ایک سروے
رپورٹ جاری ہوئی جس کے مطابق تعلیم کے شعبے میں بشمول پاکستان ریاست کے ضلع
پونچھ کا ایک خاص مقام ابھر کر سامنے آیاہے اور پونچھ کے تمام تعلیمی
اداروں میں سے ’’پرل ویلی پبلک سکول ‘‘ سب سے آگے رہا اوریہ سکول ہمارے
پہلو میں واقع ہے یوں تو ہم دعا گوہ ہیں کہ تمام ریاستی ادارے دنیا میں نام
کمائیں اور جو خوب ہیں وہ خوب تر ہو جائیں ۔آج سے کئی برس پہلے کا واقع ہے
پرل ویلی پبلک سکول میں جانے کا اتفاق ہوا ،سکول کی عمارت کا ڈیزائن ،تمام
تر زیبائیش و آرائش بے مثال اور بچوں کی دلچسپی کا سارا سامان موجود ہے ۔۔۔سکول
کا نصاب اور تربیت کا بھی بہترین انتظام حتیٰ کے ہر وہ سہولت جو کسی بھی
اچھے تعلیمی ادارے میں ہونا چاہے وہاں موجود تھی البتہ ایک چیز کی ہمیں بے
حد کمی محسوس ہوئی اور وہ یہ کہ وہاں قوم کے نونہالوں کی زندگی کے تحفظ کا
کوئی اہتمام نہیں کیا گیا تھانہ کوئی مستقبل کا پلان نظر آیا،جب کہ سیفٹی و
سکیورٹی وقت کی اہم ترین ضروت ہے اور اس پر ستم یہ کہ اس ادارے کا برسوں سے
یونہی رہنا اور وہاں کی ’’ سول سوسائٹی کی مجرمانہ خامشی ایک سوالیہ نشان
رہی ہے جیسے کہ وہاں آنیوالے بچوں کا ان سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔۔۔
سکول کی عمارت سے تقریباً سات سو میٹر کے فاصلے پر ایک تنگ سی لنک روڈ ہے
جواطراف سے مظفر آباد اور پنڈی والی سڑکوں کو ملاتی ہے واقع ہے جہاں ہر صبح
و شام معصوم بچوں کو پیدل اس سڑک تک جانا ہوتا ہے اور ایک بچہ جو صبح چھ
بجے گھر سے نکلتا ہے تو’’آٹھ گھنٹوں بعد ‘‘ اس ننھی سی جان میں کتنی جان
باقی ہو گی ک وہ ایک کلو میٹر سفر طے کرے گا۔دوسری جانب چھٹی کے وقت پل
صراط جیسی اس تنگ سڑک پر سکول وینز کا ایک جم غفیر امڈ آتا ہے کوئی دائیں
سے کوئی بائیں سے۔۔۔اور سکول کے قرب و جوار میں گاڑی کو ڈرائیو کیسے کیا
جاتا ہے اس کے قوائد و ضوابط کیا ہیں ۔۔۔؟کیا یہ ڈرائیورز لائسنس ہولڈر ہیں
۔۔۔؟ گاڑیاں ٹریفک فٹنس سرٹیفکیٹ کی حامل ہیں کہ نہیں۔۔۔؟یہ سوال اپنی جگہ
جواب طلب تو ہیں ہی لیکن ایسے حالات میں اس مقام پر پانچ سے چھ سو بچوں کا
بغیر کسی سکیورٹی پلان کے یک دم اس سڑک پر آ جانے سے حالات کیسے ہوں گے اس
کا اندازہ لگانا زرہ بھی مشکل نہیں ہے ۔ان نونہالوں میں اکثر اتنے چھوٹے
ہوتے ہیں کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ انہیں کون سی گاڑی میں بیٹھنا
ہے ۔انہیں کہاں کھڑا ہونا چاہیے اور اس طرح ایسی مشکل سورتحال میں ان بچوں
کے ساتھ کسی بھی طرح کا ناگہانی حادثہ پیش آ سکتا ہے کوئی ایکسیڈنٹ ہو سکتا
ہے ،کوئی گاڑی سے ٹکرا سکتا ہے یا یہ بچے خدانخواستہ دہشت گردی کا شکار ہو
سکتے ہیں ،یا پھر کسی بھی بچے کے گھر شام کو ’’فاٹا‘‘ سے فون کال آسکتی ہے
کہ ایک کروڑ دے دہ اگر بچے کی زندگی چاہتے ہو ۔۔۔ہم نے انتظامیہ کے سامنے
یہ سوال اٹھائے اورالتجا کی کے خدارہ کسی حادثے کا انتظار مت کیجئے یہ بچے
جتنے ہمارے ہیں اتنے ہی آپ کے بھی ہیں اور قوم کا مستقبل ہیں ،ان پر رحم
کیجئے اور سکول کی سڑک کو کشادہ کروائیں اورکار پارکنگ اور سکیورٹی گارڈز
کا اہتمام بھی کریں لیکن۔۔۔چار سال گزر چکے اس ضمن میں یہ ادارہ ایک انچ ٓگے
نہیں بڑھا ۔جب کہ دنیا بھر سے ڈونیشن کے علاوہ بچوں سے حاصل ہونیوالی فیسز
کا حساب بھی تمام سکولز سے زیادہ ہے لیکن اس ادارے کو یہ توفیق نہ ہو سکی
کہ اس پہگڈنڈی نما سڑک کو دوروہیا بنوا لے اور ایک کنال زمین خرید کر کار
پارکنگ بنوا کر ان نونہالوں پر تھوڑا سا احسان کر دے جن کے بل پر یہ ادارہ
چل رہا ہے اور ناں ہی اس سکول میں زیر تعلیم آٹھ سو بچوں کے سولہ سو والدین
کو ہی کبھی احساس ہو سکا کہ ان کے ان ننھے فرشتوں پر کیا گزرتی ہے اور ان
پر کسی بھی وقت کیا قیامت برپا ہو سکتی ہے ۔۔۔صرف ایک ’’پرل ویلی‘‘ نہیں اس
ٹاؤن میں دکان نما جتنے بھی تعلیمی ادارے قائم ہیں کسی ایک کے پاس بھی بچوں
کی سکیورٹی کے حوالے سے کوئی سیفٹی پلان نہیں ہے ۔ایسے حالات میں ان سکولز
انتظامیہ کی غفلت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن بچوں کے والدین و نام نہاد سول
سوسائٹی کی بے حسی سمجھ سے بالہ ہے ،جو یہ باور کروا رہی ہے کہ ہماری سول
سوسائٹی ہمارا معاشرہ زوال کی کن حدوں کو چھو رہا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں
کہ جب تک ہمارے کانوں کے قریب بم پھٹنے کی آواز نہ آئے ہم مڑ کر ہی نہیں
دیکھتے ۔گھر میں آگ لگے تو جب تک مکین کے کمرے تک نہ پہنچے اسے پرواہ ہی
نہیں ہوتی کہ اس میں اس کے اپنے ہی جل رہے ہیں ۔۔۔بس اسے احساس ہے کہ وہ تو
ابھی نہیں جلا ۔۔ |