بارہ جون، چائلڈ لیبر٬ پاکستان کہاں ہے؟

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے اعداد و شمار مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 168 ملین بچے مشقت کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ان بچوں کی عمریں 18 سال کم ہیں۔ پاکستان میں بھی چائلڈ لیبر کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم SPARC کے مطابق ملک بھر میں تقریباﹰ ایک کروڑ 2 لاکھ بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں 60 لاکھ بچے 10 سال سے بھی کم عمر کے ہیں۔
 

image


ایسے پاکستانی بچوں کی تعداد کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ جو سرکاری اعداد و شمار موجود ہیں وہ 18 برس قبل اکھٹے کیے گئے تھے۔ یعنی سرکاری سطح پر آخری بار سن 1996 میں سروے کیا گیا تھا۔ ان قدیم اعداد و شمار کے مطابق ملک کے 40 ملین بچوں میں سے تقریاﹰ 3.3 ملین بچے مشقت پر مجبور تھے۔ ان میں 73 فیصد تعداد لڑکوں کی جبکہ 27 فیصد تعداد لڑکیوں کی تھی۔ سب سے زیادہ چائلڈ لیبر صوبہ پنجاب میں پائی گئی، جہاں 1.9 ملین بچے چائلڈ لیبر کے زمرے میں آئے۔ صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) میں یہ تعداد ایک ملین، صوبہ سندھ میں 2 لاکھ 98 ہزار جبکہ بلوچستان میں 14ہزار بچوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی۔

SPARC کے بورڈ ممبر ایڈوکیٹ انیس جیلانی کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ عام طور پر بڑھتی ہوئی صرف غربت اور مہنگائی کو ٹہرایا جاتا ہے جو کہ ان کی رائے میں درست نہیں، ’’جو بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خاندانوں کو مکمل طور پر معاشی سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے۔ بلکہ جو کچھ وہ کمائی کر رہے ہوتے ہیں، وہ ان کی اپنی ماہانہ کمائی ہوتی ہے۔ لوگ چائلڈ لیبر کو اس لیے بھی کام پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سستی ہوتی ہے۔ تو اگر بچوں کو وہ ہزار پانچ سو مہینہ بھی دیتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہ سکتے کہ اس چھوٹی سی رقم سے پورے خاندان کا گزارا ہو گا۔ اس لیے میری رائے کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ بہتر تعلم و تربیت کا فقدان ہے۔‘‘

پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قانون موجود ہیں تاہم انیس جیلانی کے مطابق یہ ناکافی اور غیر موثر ہیں، ’’آپ کو یہ سن کر بہت حیرانی ہو گی کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک ایک بھی شخص کو بچوں کو ملازمت پر رکھنے کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا۔ سزا دی گئی تو صرف جرمانے کی جس کی رقم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ عملدرآمد نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جتنے بھی قوانین بنائے گئے ہیں وہ رسمی یا فارمل سیکٹر کا احاطہ کرتے ہیں۔ جو ہمارا غیر رسمی سیکٹر ہے، اس سے متعلق بہت ہی کم قوانین ہیں۔ مثلا گھریلو ملازم بچوں سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ اسی طرح جو بچے گاؤں یا دیہات میں زراعت کے پیشے میں کام کرتے ہیں، ان سے متعلق کوئی قانون نہیں۔ یعنی چائلڈ لیبر کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے، جن سے متعلق کوئی قانون نہیں بنایا گیا ہے۔‘‘
 

image

واضع رہے کہ ملک میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق، جو شخص بھی 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا قید کی سزا جسکی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت دوسال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔

عالمی ادارہ محنت کے مطابق چائلڈ لیبر کے زمرے میں آنے والے بچوں کی تعداد زیادہ تر قالین بافی، چوڑیاں بنانے کی صعنت، سرجیکل آلات بنانے، کوڑا چننے، چمڑا رنگنے کی صعنت کے علاوہ گھروں میں ملازمت کرتے ہوئے پائی جاتی ہے۔

انیس جیلانی کے مطابق بین الاقوامی سطح پر اگر ان صنعتوں کی مصنوعات درآمد کی جائیں تو ان پر عالمی پابندیاں عائد ہونے کا امکان ہوتا ہے تاہم ان صعنتوں میں بچوں کی موجودگی کے باوجود پاکستانی مصنوعات پر پابندیاں نہیں ہیں، ’’اب تک تو ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کی مصنوعات پر چائلڈ لیبر کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی ہو۔ آج سے 10 سال پہلے قالین بافی کی صنعت میں چائلڈ لیبر کی وجہ سے اس کی درآمد پر پابندی کی بات ضرور کی گئی تھی لیکن عائد نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح فٹ بال بنانے کی صنعت میں چائلڈ لیبر کے استعمال کے باعث پابندی عائد کی جا رہی تھی تاہم بے تحاشہ فنڈنگ کے بعد اس معاملے کو بھی نمٹا لیا گیا اور حالیہ ایسی کوئی ملکی مصنوعات نہیں ہیں، جن کی درآمد پر پابندی عائد ہو۔‘‘

چند ماہ قبل انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کے تحت جو رپوٹ شائع ہوئی، اس میں دنیا کے 67 ایسے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے، جہاں چائلڈ لیبر کے حوالے سے خطرناک صورتحال ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس صورتحال کو بہتر کرنے میں حکومت سنجیدگی سے کوشش کرے اور مؤثر قانون سازی پر توجہ دے تو ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے۔

“ ڈوئچے ویلے سے اخد شدہ “
YOU MAY ALSO LIKE:

Child labour, for its strong opponents, may be a social issue, but failing to eliminate child labour also has an impact on Pakistan’s economy – and a severe one. A country like Pakistan, which continuously struggles to increase its exports, should now review its commitment to the elimination of child labour as it is now more directly linked with its exports.