انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ تنہائی میں گھبراتا ہے اور
معاشرے میں دل لگ جاتا ہے۔ ہم جس گھر،محلہ ،گاؤں، شہراور ملک میں رہتے ہیں،
ان سے بتدریج فطری لگاؤ ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان کو اپنے اہل خانہ،اہل
خاندان اور برادری کے دیگر لوگوں کے ساتھ بھی انسیت کا تعلق ہوتا ہے۔دائرہ
جتنا چھوٹا ہے، تعلق اور لگاؤ اتنا ہی زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ مثلا میں
ہندستان کا باشندہ ہوں، مجھے سب ہندستانیوں سے ہم وطنی کے تعلق سے فطری
لگاؤ ہے۔ میری دوسری حیثیت یہ ہے کہ ملَّت اسلامیہ کا فردہوں۔اس لئے اپنی
ملت کے افراد سے ایک الگ خصوصی تعلق ہے۔ اہل وطن کے ساتھ جو تعلق ہے وہ
اپنی جگہ مگر اپنے گاؤں بستی والوں سے ،مقام بود وباش اور مرز و بوم کی وجہ
سے اور ملت اسلامیہ سے عقیدہ کی وجہ سے ایک گونہ الفت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے
آگے بڑھئے ۔ انسان کو اپنی برادری سے ایک خاص لگاؤ ہوتا ہے۔ یہ تعلق اپنے
خاندان سے زیادہ قریبی ہوتا ہے۔مگر اپنے قریبی رشتہ داروں، والدین، ان کے
والدین، ان کی اولادوں سے باقی سارے خاندان سے ایک گونہ الفت زیادہ ہوتی ہے۔
اپنے بہن بھائی بھی خاندان کے ہی فرد ہیں اوراپنی بیوی اور بچے بھی، مگر ان
سے تعلق اور زیادہ ہوتا ہے۔ آپ محسوس کریں گے کہ انسیت سب سے ہوتی ہے
مگرقربت جتنی بڑھتی جاتی ہے، انسیت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے۔
علامہ ابن خلدون نے اس جذبہ کو اپنی مشہور کتاب’ مقدمہ‘ میں ’عصبیہ‘ کا نام
دیا ہے۔
یہ فطرت عام ہے۔ مگر انسان کی عظمت کی شان یہ ہے کہ اس کا دل بڑا ہواور
ہرآدم زاد کے آزار سے وہ بیقرار ہوجائے اور ان کے بھلے کے لئے اپنی جان
لڑادے۔ اس کا اعلا ترین نمونہ رسول رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات پاک ہے۔
غورفرمائے ، جس چیز نے آپ ﷺ کو دنیا کو عظیم ترین اور اﷲ کا محبوب ترین
انسان بنایا وہ کیا چیز ہے؟ وہ ہے تمام انسانوں، حتیٰ کہ اپنے دشمنوں تک کے
ساتھ خیرخواہی کا جذبہ ۔ گویا انسانیت کی بلند درجہ یہ ہے کہ انسان ساری
عصبیتوں کے باوجوع تمام انسانوں کا خیرخواہ ہو۔ جس کا دل جتنا بڑا ہوگا، اس
کا دوسروں کے لئے خیرخواہی کا دائرہ بھی اتنا ہی وسیع ہوگا۔ اسی مناسبت سے
اس کا مقام اور مرتبہ بھی بڑھتا جائیگا۔ ہمارے حضورﷺ کا اس لئے کوئی ثانی
نہیں کہ وہ اپنے ہی دور کے انسانوں کے لئے نہیں بلکہ اﷲ کی ساری مخلوق کے
لئے ، چاہے وہ ادنیٰ سے چیونٹی اور حقیرسی چڑیا ہی کیوں نہ ہو، حددرجہ
خیرخواہی کے جذبہ سے سرشار تھے اور انسانوں کے ساتھ تو آپ کی خیرخواہی کا
عالم یہ تھا کہ ان کو جہنم کے گڑھے سے نکال کر باغ جنت کا راستہ دکھانے کے
لئے ہزار مصائب جھیلے اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالا مگر پیچھے نہیں ہٹے۔
آ ج اپنے صحافتی کالم کاآغاز میں نے ان کلمات سے اس لئے کیا ماہ شعبان نصف
گزرنے ولا ہے۔اسی جمعہ کو شبِ برأت ہے گویا ماہ مبارک رمضان کی آمدکا اعلان
ہوچکا ہے۔ اس ماہ میں نیکیوں کی طرف رغبت زیادہ ہوتی ہے۔ نماز ،روزہ ، صدقہ
و زکوٰۃ اور تلاوت قرآن کی طرف انہماک بڑھ جاتا ہے۔ نیکیوں کے اس موسم بہار
میں ہم اس پہلو پر بھی غور کریں کہ مراسم عبادات کی ادائیگی کے ساتھ ہم
انسانیت، اپنی ملت، اپنے اہل محلہ، اہل خاندان اور اہل خانہ کے زیادہ سے
زیادہ خیرخواہ کس طرح بنیں؟ بیشن عبادت وریاضت بڑی سعادت ہے ، لیکن رسول
رحمت کی مکمل پیروی کے لئے اپنے اندر خدمت خلق کے جذبہ کو بھی جلا دینی
ہوگی۔
اﷲ کے رسول نے دنیا کو تعلیم کے زریعہ فلاح کی راہ دکھائی۔ آپ اﷲ سے علم
نافع عطا فرمانے اور غیر نافع سے محفوظ رکھنے کی دعا کیا کرتے ہے ۔ آپ نے
فرمایا علم حاصل کرنا ہر مومن مرد اور عورت پر فرض ہے۔ علم کے لئے کوئی عمر
کی قید نہیں بلکہ ماں کی گود سے قبر میں جانے تک علم حاصل کرنے کا وقت ہے۔
سب سے بہترین علم قرآن کو سیکھنا ہے۔ سیکھنے سے مراد سمجھ سمجھ کر پڑھنا
اور پھر امکان بھر اس پر عمل کرنا ہے۔جو مومن قرآن کا علم رکھتا ہے وہی اﷲ
کی رضا کو پہچانتا ہے۔ اس لئے اس رمضان میں تلاوت کے ساتھ قرآن کے معنی اور
مفہوم کو بھی سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ اس کے علاوہ علم نافع کو پھیلانے کی
کوشش کیجئے۔ سب سے پہلے ہم پر اپنے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری ہے۔ قرآ ن کے
ساتھ ان کے لئے بہترین عصری علوم کا بھی اہتمام کیجئے۔ اس کے بعد ہماری ذمہ
داری ہے پوری قوم اور ملت کے بچوں کی تعلیم کو اہمیت دیں۔ دور حاضر میں
تمام دانشور اس رائے پر متفق ہیں کہ ملت کے موجودہ مسائل کو حل اعلا تعلیم
میں ہے۔اس دور میں سب سے زیادہ اہمیت فنی علوم کو سیکھنے کی ہے ۔ جن سے
روزگار کی راہ نکلتی ہے۔ خصوصا اس طبقہ کے لئے جس پر سرکاری ملازمتوں کے
دروازے تنگ ہوچکے ہیں ، ان کو فنی علوم کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ جس کے
ہاتھ میں ہنر ہے ، آج وہی سکندر ہے۔ اپنے بچوں کی ایسی تعلیم کا بندوبست
کیجئے کہ دل میں ایمان ہو، اعمال میں اسلام میں ہو، ہر قسم کی شدت پسندی سے
دور ہوں اور اپنی ہنرمندی سے دنیا کے دلوں کو اپنی مٹھی میں بند کرلیں۔
(ختم) |