نفسیاتی خود انحصاری

جس طرح روز مرہ کے مسائل بڑھ رہے ہیں خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ انسان کے جسمانی اور ذہنی نظام کو متاثر نہ کریں ۔بہت سی جسمانی بیماریاں بھی ذہنی دباؤ کی مرہون منت ہیں۔ کسی بھی ہسپتال میں چلے جائیں فشار خون سردرد اور معدے کے مسائل عام ہیں جنہیں زیادہ تر میڈیکل سائنس ذہنی پریشانی سے منسوب کرتی ہے۔ جسمانی بیماریوں کے لیے تو فوراََ یا تکلیف بڑھنے سے ڈاکٹر سے رجوع کر لیا جاتا ہے لیکن ذہنی دباؤ کے لیے نہ تو کسی سے مشورہ لیا جاتا ہے اور نہ ہی خود اپنے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس وقت بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں میں یکساں نفسیاتی مسائل بڑھ رہے ہیں۔ بنیادی وجہ خاندان میں بڑوں کی غیر موجودگی یا ایک دوسرے سے دُوری ہے۔ ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کے بارے میں خبر نہیں ہوتی۔ بچہ اگر کمپیوٹر پر گیم کھیل رہا ہے تو والد لیپ ٹاپ پر آفس کا کام کر رہے ہیں اور والدہ فون پر بات کر رہی ہیں اور یا پھر ٹی وی دیکھ رہی ہیں۔

بچوں کے تعلیمی اور معاشرتی مسائل کی نوعیت بھی بدلتی جارہی ہے۔ آس پاس تشدد آمیز واقعات اور منفی رجحانات بھی ذہن پر بُرا اثر ڈالتے ہیں جس کے نتیجے میں ذہن انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ اب یہ ضروری لگتا ہے کہ ہر تعلیمی ادارے اور کام کرنے کی جگہوں پر نفسیات دان تعینات ضرور ہوں تاکہ وہ حالات کو سمجھتے ہوئے لوگوں کے رویوں کا اندازہ لگائیں۔ حالات کو بھی کنڑول کریں اور لوگوں کو بھی ذہنی پریشانی سے بچائیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اب نفسیاتی ماہر تو ہر جگہ ہو نہیں سکتے اس لیے ذرائع ابلاغ اور دیگر خود آگاہی کے طریقوں کو اپنا کر لوگوں کو بنیادی نفسیاتی مسائل او ر ان کے حل سے آگاہ کیا جائے۔ روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ اُن کی وضاحت کر کے اُن کے ممکنہ اثرات سے آگاہ کیا جائے۔ جیسے جیسے لوگوں کو مسائل سے آگاہی ہوگی وہ خود اسے دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح لوگوں میں خود اعتمادی بڑھے گی اور وہ خود انحصاری کے ذریعہ بہت سے مسائل پر قابو پالیں گے۔ مسجد ہمارے لیے سب سے بڑی رحمت ہے جہاں اپنے محلے اور علاقے کے مسائل انفرادی اور اجتماعی طور پر حل ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ہر علاقے میں ایک کمیونٹی سینٹر ہو تو وہ بھی لوگوں کو معاشرتی طور پر قریب لا سکتا ہے۔مثبت اور اچھی سوچ کے ذریعے ہم بہت سے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔ ہماری یکجہتی اور اتحادہی ہماری طاقت ہے۔ اسے سلامت رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔

Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 43593 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.